1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

15 ویں سارک سربراہ کانفرنس کا پہلا روز

2 اگست 2008

آٹھ جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم سارک کی سربراہ کانفرنس ہفتے کے روز سے سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں شروع ہوئی۔ اِس دو روزہ کانفرنس کے آغاز پر جنوبی ایشیائی قائدین نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر زور دیا۔

https://p.dw.com/p/EozT
سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم منموہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کی ملاقات۔تصویر: AP

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ دہشت گردی جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اُنہوں نے کہا:’’ہم نفرت اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں شکست کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اِس لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔‘‘

آج ہی من موہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اِس ضرورت پر زور دیا کہ خطے میں امن اور ترقی کے لئے دہشت گردی کے خلاف اکٹھے ہو کر جدوجہد کی جانی چاہیے۔

دہشت گردی کے خلاف قانونی اشتراکِ عمل کا سمجھوتہ اُن چار سمجھوتوں میں سے ایک ہے، جن پر یہ قائدین دستخط کرنے والے ہیں۔ چونکہ سارک تنظیم دنیا کی بیس فیصد آبادی اور ایک ایسے خطے کی نمائندگی کرتی ہے، جو دنیا کے غریب ترین خطوں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اِس لئے یہاں خوراک اور توانائی کی یقینی فراہمی سے متعلق بھی سمجھوتوں پر دستخط کئے جائیں گے۔

کانفرنس کے پہلے روز تقریباً ہر مقرر نے خوراک اور توانائی کے شعبوں میں بھی باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا لیکن زیادہ زور دہشت گردی کے سدباب پر رہا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ اِس خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور اقتصادی اشتراکِ عمل بڑھانے کے لئے دہشت گردی پر قابو پانا ہو گا۔

کانفرنس کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر 20 ہزار سے زیادہ سیکیورٹی اہلکاروں کو کانفرنس کے شرکاء کی حفاظت پر مامور کیا گیا ہے۔ کانفرنس ایک ایسے وقت ہو رہی ہے، جب سارک تنظیم کے دو بڑے رکن ملکوں پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

سارک تنظیم میں نیپال، سری لنکا، بھوٹان، مالدیپ اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں اور 23 سال پہلے یہ تنظیم جنوبی ایشیا میں واقع ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو مستحکم بنانے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ رکن ممالک اور خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان پرانے تنازعات کی وجہ سے تنظیم کا اصل ہدف ہمیشہ نظر انداز ہوتا رہا ہے۔

اِس بار بھی کانفرنس کے ماحول میں خاصا تناؤ ہے اور بھارت کا کہنا ہے کہ گذشتہ مہینے کے مسلسل بم دھماکوں کے بعد سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا چار سال سے چلا آ رہا عمل اپنی نچلی ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ چنانچہ بھارتی وزیر خارجہ شو شنکر مینن کے مطابق دہشت گردی کو اِس کانفرنس میں اہم ترین موضوع کی حیثیت حاصل رہے گی۔

سارک کے دیگر رکن ممالک کے تنازعات بھی کانفرنس میں زیرِ بحث آئیں گے۔ میزبان سری لنکا کو گذشتہ پچیس برسوں سے خانہ جنگی کا سامنا ہے، نیپال میں ابھی تک ایک نئی حکومت نہیں بن سکی جبکہ بنگلہ دیش میں فوج کی پشت پناہی سے قائم حکومت انتخابات منعقد کروانے کے مشکل اور پیچیدہ عمل میں مصروف ہے۔