1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

1941ء کے بھر چکے زخم کون کھول رہا ہے؟

وکٹر ژیروفی ژیف / امتیاز احمد22 جون 2016

ایک بڑی جنگ ایک بڑی حماقت ہے اور ایک چھوٹی جنگ بھی ایک بڑی حماقت ہے۔ کئی عشرے قبل سوویت یونین پر نازی جرمنی کے حملے کے دن کی اہمیت کیا ہے اور آج ایک بار پھر ایسا ہی ایک دن کیوں خطرناک حد تک بہت قریب نظر آتا ہے؟

https://p.dw.com/p/1JBFF
Zweiter Weltkrieg Hitler-Deutschland überfällt die Sowjetunion
تصویر: Imago/ITAR-TASS

ڈی ڈبلیو کے مہمان مضموں نگار اور روسی مصنف وکٹر ژیروفی ژیف Viktor Jerofejew اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ آج کا دن کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ایک ابدی سوال یہ ہے کہ کون زیادہ برا تھا؟ سٹالن یا ہٹلر؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ہی بارودی پتھر تھے، جن کے آپس میں ٹکرانے سے چنگاریاں پیدا ہوئیں اور انہی چنگاریوں کے بطن سے دوسری عالمی جنگ کی آگ نے جنم لیا۔

ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کی مدد کے بغیر نہیں جل سکتا تھا لیکن یہ سٹالن تھے، جنہوں نے پہلے خود کو چکمک پتھر ثابت کیا اور وہ تمام جواز فراہم کیے، جن کے نتیجے میں ہٹلر کو اقتدار میں آنے اور جنگ کی قیادت کرنے کا موقع ملا۔ میں ان کہانیوں پر تو یقین نہیں رکھتا کہ سٹالن ہٹلر سے پہلے ہی جرمنی پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ میرے خیال میں سٹالن کو ایک ایسا شخص مل گیا تھا، جس کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے وہ اپنے اعمال ( دہشت گردی اور لاکھوں ہلاکتوں) کا اخلاقی جواز ڈھونڈ سکتا تھا۔ ہٹلر دنیا کی تاریخ کا وہ واحد شخص تھا، جس میں سٹالن برائی کی پیمائش کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔

Leipziger Buchmesse Viktor Jerofejew
وکٹر ژیروفی ژیفتصویر: DW/Andreas Peter

22 جون 1941ء کے دن نازی جرمنوں کے سوویت یونین پر حملے کو ہر کوئی اپنی نظر سے دیکھنے کا حق رکھتا ہے۔ میں اس دن کو انسانی تاریخ میں غلط ترین فیصلے کا دن قرار دیتا ہوں۔ ہٹلر اور سٹالن نفسیاتی مریضوں کی طرح ایک آئیڈیل صورتحال پیدا کرنے کے لیے مقابلے پر اتر آئے تھے۔ یہ دونوں خود کو برتر اور بہترین قائد کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ میرے ذاتی خیال میں اگر ہٹلر کو بائیس جون کے دن کامیابی مل جاتی تو وہ اتنا بڑا نفسیاتی مریض نہ بنتا۔

اس دن کی وجہ سے جرمنوں اور روسیوں کے مابین نفرت کے پہاڑ کھڑے ہوئے۔ جب میں چھوٹا تھا، تو اس وقت ہم ’جنگ‘ کھیلا کرتے تھے اور اس وقت ہم جرمنی کو جہنم کا متبادل سمجھتے تھے۔ بعد میں جرمنی جب وفاقی جمہوریہ بنا تو اسے اقتصادی ترقی کا متبادل سمجھا جانے لگا، کیوں کہ اس وقت میرے ہم عمر ہوٹلوں کے اردگرد سگریٹ اور چیونگ گم بھیک کے طور پر مانگا کرتے تھے۔

آج کے دور میں روس اور جرمنی کے تعلقات ماضی کے مقابلے میں بہتر ہیں اور توقع بھی اسی بات کی تھی۔ یوکرائن کے بحران سے قطع نظر جرمنوں کے لیے آج بھی روس کمزور لیکن عالمی طاقت امریکا کا قدرتی ہم پلہ ملک ہے۔ روسیوں کے لیے جرمنی سماجی اور انسانی معاشرے کے لحاظ سے سب سے قابل فہم ماڈل ہے، جسے روس اپنے لیے ناقابل رسائی ماڈل سمجھتا ہے۔

اور آج؟ بائیس جون کو شروع ہونے والی جنگ کیا معنی رکھتی ہے؟ انسانی نقطہ نظر سے یہ ایک بہت بڑا لیکن مندمل ہو چکا زخم ہے لیکن ابھی تک دونوں اطراف آنسو ہیں۔

لیکن اب ایک نیا تاریخی بحران سر اٹھا چکا ہے۔ کییف میں میدان اور مشرقی یوکرائن میں کریمیا کے واقعے کے بعد روس اور مغرب ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور میری نظر میں یہ ہمیں ایک مرتبہ پھر سے خطرناک حد تک ’ایک نئے بائیس جون‘ کے قریب لے آئے ہیں۔ آج روس ماضی کی اس جنگ کو سیاسی طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس طرح مندمل ہو چکے زخموں کو پھر سے کھرچا جا رہا ہے۔