1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2011ء عرب دنیا کے لیے تبدیلیوں کا سال، عراق اور شام کے لیے نہیں

24 دسمبر 2011

سال 2011ء پوری عرب دنیا کے لیے تاریخی تبدیلیوں کا سال رہا، جہاں عوام نے عشروں سے برسراقتدار آمروں کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ شام اور عراق تاہم ابھی تک غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔

https://p.dw.com/p/13Yq4
تصویر: picture-alliance/dpa

تیونس کے ایک شہر میں ایک خاتون پولیس اہلکار کی طرف سے ایک غریب سبزی فروش کو تھپٹر لگایا گیا، تو اس نے حکومتی فورسز کے سخت رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود کو آگ لگا دی۔ اس ایک نوجوان کی خود سوزی کی خبر نے پہلے تو تیونس اور پھر پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

تیونس میں دو دہائیوں سے زائد عرصے سے برسر اقتدار صدر زین العابدین بن علی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا، تاہم عوام کا سمندر کسی صورت قابو میں نہ آیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی روز میں زین العابدین بن علی کو صدارت اور ملک دونوں چھوڑ کے سعودی عرب میں پناہ لینا پڑی.

Serie Wo steht der Arabische Frühling ENG 1v7 Startbild
عرب دنیا میں عوام نے ایک کے بعد ایک آمر کو اقتدار سے الگ کیا

اس کے فوراﹰ بعد مصر میں مظاہرین نے التحریر چوک میں ڈیرے ڈال لیے۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے حکومتی عہدیداروں کی کرپشن اور ملک میں آمریت کے خلاف بھرپور احتجاج شروع کیا۔ احتجاج کرنے والوں میں سب سے نمایاں وہ نوجوان تھے، جو فیس بک اور ٹویٹر جیسی سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے مظاہروں کے مقام اور وقت کے ساتھ ساتھ کریک ڈاؤن کی تصاویر اور موبائل کیمروں سے بنائی گئی فوٹیج دنیا کو دکھاتے گئے۔ یہاں بھی حکومتی فورسز کی ایک نہ چلی اور حسنی مبارک جیسے مضبوط حکمران کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

اسی اثناء میں عرب دنیا میں ان مظاہروں کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف پہلے تو پرامن مگر بعد میں مسلح جدوجہد شروع ہو گئی، جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد نیٹو کے فضائی حملوں سے بھی تقویت ملی۔ اس پورے معاملے کا انجام بھی گزشتہ 42 برسوں سے لیبیا پر حکومت کرنے والے مطلق العنان معمر قذافی کے دور کے خاتمے حتیٰ کہ ان کی ہلاکت کی صورت میں برآمد ہوا۔

اسی طرح یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کو بھی مظاہرین کے خلاف طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود آخر کار اس معاہدے پر دستخط کرنا پڑے، جو ان کے اقتدار کا خاتمے کا پروانہ تھا۔

Proteste gegen Präsident Bashar Assad in Syrien
بشارالاسد ابھی تک حکومت چھوڑنے پر آمادہ نہیںتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم اس حوالے سے شام کی صورتحال زیادہ تباہ کن رہی، جہاں ابھی تک بشار الاسد اپنی سکیورٹی فورسز کی طاقت کے بل پر مظاہرین کی سرکوبی میں مصروف ہیں۔ شام میں گرشتہ نو ماہ میں پانچ ہزار سے زائد انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تاہم عالمی برادری اور عرب لیگ کی طرف سے پابندیوں کے باوجود بشار الاسد ابھی تک حکومت چھوڑنے پر تیار نہیں۔ گزشتہ روز شامی دارالحکومت میں سکیورٹی فورسز کی دو عمارتوں کو کار بم حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جو گزشتہ کئی دہائیوں میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ سن 2012ء یا تو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی نوید کے ساتھ شروع ہو گا، یا شاید ایسا نئے سال کے شروع میں دیکھنے میں آئے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو نتیجہ عرب دنیا میں تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں خانہ جنگی کی صورت میں برآمد ہو گا۔

دوسری جانب عراق میں بھی صورتحال دگرگوں ہے۔ ایک طرف تو عراق سے امریکی فوج کا مکمل انخلاء ہو چکا ہے، تو دوسری جانب وہاں ابھی تک سیاسی خلا اور فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلا برس شام کے لیے تو شاید کسی تبدیلی کا سال ہو لیکن عراق میں صورتحال مزید بگڑنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: مقبول ملک