1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2015ء: بلوچستان کے لیے تبدیلی اور استحکام کا سال

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ27 دسمبر 2015

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبہ بلوچستان میں سال 2015ء سیاسی ماحول میں خوشگوار تبدیلی اور استحکام کا سال ثابت ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HUDA
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

اپنے آخری ایام سمیٹنے والے رواں سال کے دوران صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری اور گزشتہ دو دہائیوں سے جاری بلوچ مسلح بغاوت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں ائی ہے۔

بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنماؤں سے جاری مذاکرات اور صوبائی اور مرکزی سطح پرحکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی بدولت، سال 2015 ء کے دوران بلوچ باغی تنظیموں کے 1000 سے زائد مسلح عسکریت پسندوں نے صوبے کے مختلف علاقوں میں ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔

ہتھیار ڈالنے والوں میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، لشکر بلوچستان، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور دیگر تنظیموں کے کئی اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔ حکومت نے ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کی بحالی کے لیے پرامن بلوچستان پیکیج کی منظوری دی ہے جس پر کام پہلے ہی شروع کیا چکا ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں

2015ء کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں طالبان شدت پسندوں اور القاعدہ کے انتہائی مطلوب عسکریت پسندوں کے خلاف بھی مؤثر کارروائیاں کی گئیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں طالبان اور القاعدہ کے کئی اہم رہنما بھی مارے گئے۔ ان میں القاعدہ پاکستان کا سربراہ عمر لطیف عرف لقمان بھی شامل ہے جو چاغی کے قریب پاک افغان سرحدی علاقے میں دو اگست کو پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کی کارروائی کے دوران مارا گیا۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی کے درجنوں واقعات میں ملوث کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی بلوچستان کا سربراہ عثماں سیف اللہ کرد بھی 16 فروری کو ساتھی سمیت کوئٹہ کے قریب سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہوا۔ عثمان سیف اللہ کرد سیکورٹی اداروں کو فرقہ وارانہ دہشت گردی کے کئی اہم کیسز میں مطلوب تھا اور اس پر دو سو سے زائد افراد کے قتل کے مقدمات درج تھے۔


نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی رواں سال عسکریت پسندوں کے خلاف بھر پور ٹارگٹڈ آپریشن کیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران جہاں مجموعی طور پر عسکریت پسندوں کے سو سے زائد مشتبہ ٹھکانے تباہ کیے گئے، وہیں اس دوران مبینہ مقابلوں میں اب تک چار سو سے زائد عسکریت پسند ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ سرچ آپریشن کے دوران درجنوں سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک اور زخمی ہوئے جن میں فورسز کے بعض سینیئر افسران بھی شامل ہیں۔ سکیورٹی فورسز نےکارروائیوں کے دوران بڑے پیمانے پر اسلحہ اور ہزاروں کلوگرام دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا جسے دہشت گردی پھیلانے کے لیے مختلف علاقوں میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔

دہشت گردانہ واقعات

رواں برس بم دھماکوں ٹارگٹ کلنگ اور بد امنی کے دیگر واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی
رواں برس بم دھماکوں ٹارگٹ کلنگ اور بد امنی کے دیگر واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئیتصویر: DW/A. G. Kakar

بلوچستان میں اگرچہ رواں برس بم دھماکوں ٹارگٹ کلنگ اور بد امنی کے دیگر واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی تاہم دہشت گردی کے بعض بڑے واقعات بھی پیش آئے۔ ان میں نمایاں واقعہ 29 مئی کو ضلع مستونگ میں پیش آیا۔ اس واقعے کے دوران عسکریت پسندوں نے کوئٹہ سے کراچی جانے والے مسافر بسوں سے 25 افراد کو اتار کر قتل کیا۔ 19 اکتوبر کو شدت پسندوں نے سریاب میں ایک بس پر بھی ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور 25 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

18 نومبر کو صوبے کے شورش زدہ علاقے بولان میں کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس کو ایک بڑا حادثہ پیش آیا۔ اس حادثے کے دوران ٹرین کی پانچ بوگیاں پٹڑی سے اترنے کے باعث 16 مسافر ہلاک جبکہ 150 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں نے ریلوے ٹریکس پر مجموعی طور پر 43 بم دھماکے بھی کئے جس سے پٹڑیوں کو تو نقصان پہنچا لیکن جانی نقصان نہیں ہوا۔

پاکستان نے چین کے ساتھ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبے پر دستخط کیے ہیں
پاکستان نے چین کے ساتھ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبے پر دستخط کیے ہیںتصویر: DW/A. Ghani Kakar

بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران 22 ستمبر کو یہ دعوٰی کیا کہ اواران میں بلوچ کالعدم تنظیم، بی ایل ایف کا سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران ہلاک ہوچکا ہے، تاہم اس دعوے کی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ دوسری جانب بی ایل ایف نے حال ہی میں ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں ڈاکٹر اللہ نذر کو یہ بیان جاری کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ زندہ ہے اور آزاد بلوچستان کے حصول کے لیے جاری جنگ کی اپنے علاقے میں قیادت کر رہا ہے۔

مثبت سیاسی تبدیلی اور مفاہمت
سال2015ء سیاسی حوالے سے تبدیلی کا سال بھی ثابت ہوا اور 24 دسمبر کو مری معاہدے کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مستعفی ہونے کے بعد صوبے میں نئے نامزد وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری قائد ایوان منتخب ہوئے ہیں۔ اس صورتحال کا ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلم لیگ نون کی رہنماء راحیلہ درانی صوبائی اسمبلی کی بلامقابلہ اسپیکر منتخب ہوئی ہیں۔

رواں سال ماضی کی نسبت صوبائی مخلوط حکومت نے ناراض بلوچ رہنماؤں کے ساتھ جاری مذاکرات میں بھی اہم پیش رفت حاصل کی۔ اس دوران یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ ریپبلکن آرمی کے سربراہ نواب براہمداغ بگٹی اور خان آف قلات نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مشروط مذاکرات پر آمادگی بھی ظاہر کی جسے ماہرین نے بلوچستان کے استحکام کے لیے اہم قرار دیا ہے۔ اس پیشرفت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے لندن میں بلوچ باغی رہنماء براہمداغ بگٹی سے ملاقات بھی کی اور انہیں واپس پاکستان آنے کی دعوت دی۔

اکنامک کوریڈور اور غیر ملکی سرمایہ کاری

بلوچستان میں رواں سال غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور پاکستان نے چین کے ساتھ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت چین پاکستان میں 46 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا۔ صوبےکی اپوزیشن میں شامل جماعتوں نے سرمایہ کاری کے ان منصوبوں کے حوالے سے کئی تحفظات بھی ظاہر کیے۔
دوسری جانب مرکزی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات کے بعد پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے مغربی روٹ پر کام شروع کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ 30 دسمبر کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ژوب میں اس منصوبے کے مغربی روٹ پر کام کا افتتاح کرنے والے ہیں۔