1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

36 افغان اضلاع طالبان کے کنٹرول میں، 104 پر قبضے کا خطرہ

مقبول ملک29 جولائی 2016

افغانستان میں سرکاری دستوں کو طالبان کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں کئی علاقوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ اس وقت 36 اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے جبکہ مزید 104 اضلاع جنگجوؤں کے کنٹرول میں چلے جانے کا خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1JYYY
Infografik Karte Afghanistan Provinzen ARA

افغان دارالحکومت کابل سے جمعہ انتیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ایک نئی امریکی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ امریکا کے افغانستان کی تعمیر نو سے متعلقہ امور کے نگران خصوصی انسپکٹر جنرل (SIGAR) کی جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں سرکاری دستوں کے زیر قبضہ علاقے افغان باغیوں کے کنٹرول میں جاتے جا رہے ہیں۔

اس رپورٹ میں امریکی فوج کی اعلیٰ کمان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس سال جنوری میں افغان سکیورٹی دستوں کو ملک کے کُل 34 صوبوں کے 407 اضلاع میں سے 70.5 فیصد پر کنٹرول حاصل تھا۔ لیکن پانچ ماہ بعد مئی کے آخر تک ایسے اضلاع کا تناسب کم ہو کر 65.6 فیصد رہ گیا تھا۔

ڈی پی اے کے مطابق اس طرح اس سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران افغان سکیورٹی دستے ملک کے قریب پانچ فیصد علاقے پر اپنے قبضے سے محروم ہو گئے۔ ’سیگار‘ SIGAR کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو ماہ قبل مئی کے آخر میں افغانستان کے 34 میں سے 15 صوبے ایسے تھے، جہاں 36 اضلاع یا تو باغیوں اور عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں تھے یا ایسے شدت پسندوں کو وہاں بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل تھا۔

اس رپورٹ کا کابل حکومت اور امریکا کے لیے ایک پریشان کن پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان میں سو سے زائد (104) اضلاع ایسے بھی ہیں، جہاں باغیوں اور مزاحمت کاروں کے قبضے کا خطرہ ہے۔

Afghanistan Taliban
ہندوکش کی اس ریاست میں سرکاری دستوں کے زیر قبضہ علاقے افغان باغیوں کے کنٹرول میں جاتے جا رہے ہیںتصویر: picture-alliance/T. Koene

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے سرکاری دستوں اور افغان مزاحمت کاروں کو حاصل جغرافیائی اثر و رسوخ کے تناسب میں اس تبدیلی کی وجوہات کے بارے میں لکھا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا جنگی مشن باقاعدہ طور پر دسمبر 2014ء میں ختم ہو گیا تھا۔

اس کے بعد سے اب تک افغان سکیورٹی دستوں کو طالبان جنگجوؤں کے خلاف لڑتے ہوئے دسمبر 2014ء سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہ‍ا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو میں شامل ممالک کو حال ہی میں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ افغانستان سے اپنے باقی ماندہ فوجی دستوں کے حتمی انخلاء کا عمل مزید سست کر دیں گے تاکہ یہ غیر ملکی دستے مقامی سکیورٹی فورسز کی اور زیادہ عرصے تک مدد کر سکیں۔

سلامتی امور کے ماہرین اور دفاعی شعبے کے اعداد و شمارکے مطابق نیٹو کے جنگی مشن کے خاتمے کے بعد کے ایک سال یعنی 2015ء میں طالبان کے ساتھ لڑتے ہوئے یا ان کی طرف سے کیے گئے حملوں میں سات ہزار کے قریب افغان فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ پچھلے سال زخمی سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 14 ہزار رہی تھی۔

US- und afghanische Soldaten in Afghanistan
افغانستان میں موجود نیٹو کے دستے کئی طرح کی عسکری کارروائیوں میں مقامی سکیورٹی فورسز کی مدد کرتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

دفاعی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ اس سال مجموعی طور پر ہلاک یا زخمی ہو جانے والے ایسے افغان سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کل جمعرات اٹھائیس جولائی کو کابل کے نزدیک صوبے ننگرہار میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے پانچ امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔

یہ امریکی فوجی دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ افغان دستوں کے مسلح تصادم میں سرکاری فوجیوں کی مدد کر رہے تھے۔ نیٹو دستوں میں شامل اپنے ان فوجیوں کے زخمی ہونے کی کابل میں امریکی فوجی کمان نے بھی تصدیق کر دی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں