1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

50 برسوں سے جذام کے مریضوں کی خدمت میں مصروف، سسٹر جنین

15 فروری 2012

کراچی کے میری اڈیلیڈ لپروسی سینٹر میں زِیر علاج مریضوں نے سسٹر جینین شلُز کو ایک باہمت خاتون کا خطاب دیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سسٹر جینین مشکل حالا ت کا اس جواں مردی سے مقابلہ کرتی آئی ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

https://p.dw.com/p/143gd
سسٹر جنین شُلز
سسٹر جنین شُلزتصویر: DW

اس بارے میں بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ کہ جب بیلجئم سے تعلق رکھنے والی جنین شلز کو جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ نے جذام کے مریضوں کی نگہداشت کے لیے کہا تو باقاعدہ تربیت یافتہ نرس ہوتے ہوئے بھی وہ خاصی خائف تھیں۔ انہوں نے ایک ڈاکٹر کے بارے میں سنا تھا کہ جذام کا علاج کرتے ہوئے وہ خود بھی مریض ہوگیا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے سب سے پہلے اپنی والدہ سے مشورہ کیا۔

تاہم تمام تر خدشات کے باوجود 21 سالہ جینین نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی پیشکش قبول کرتے ہوئے کراچی کا رخ کیا اور آج 50برس بعد بھی جینین اسی طرح سے کراچی میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ کراچی کے حالات کا اتار چڑھاؤ بھی سسٹر جینین کے حوصلوں کو شکست نہ دے سکا اور انہوں نے کبھی بھی واپس لوٹنے کا نہیں سوچا۔ ابتداء میں وہ یہاں صرف تین سال کے لیے آئیں تھیں مگر اب میری ایڈیلیڈ لپروسی سینٹر MALC پاکستان میں ان کے قیام کی پچاسویں سالگرہ منا رہا ہے۔ یہاں رہنے کے لیے انہوں نے جرمن اور پھر اردو سیکھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اردو سیکھنے کے لیے انہوں نے سال بھر کا کورس تین مہینے میں ختم کیا اور آج وہ یہاں آنے والے مریضوں اور ان کے اقارب سے ایسے بات کرلیتی ہیں جیسے کہ اردو ان کی مادری زبان ہو۔

سسٹر جنین شُلز، ڈوئچے ویلے کے نمائندے رفعت سعید سے گفتگو کر رہی ہیں
سسٹر جنین شُلز، ڈوئچے ویلے کے نمائندے رفعت سعید سے گفتگو کر رہی ہیںتصویر: DW

اسی وجہ سے 1986میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے جینین سے کہا کہ وہ مریضوں کے رشتہ داروں کے لیے ایک اسکول کھولیں تاکہ ان لوگوں کا کم از کم ایک مسئلہ تو حل ہو۔ جذام کے مریض عموماً ایسی حالت میں علاج کے لیے آتے ہیں، جب ان کے ہاتھ پاﺅں گل سڑ چکے ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں علاج کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے اور اس سوچ کے تحت کہ علاج کے ساتھ ان مریضوں کو تعلیم بھی پہنچائی جائے یہ تعلیمی مرکز قائم کیا گیا ۔

میری اڈیلیڈ لپروسی سینٹر کراچی میں افغانستان سے بھی مریضوں کی ایک بڑی تعداد آتی ہے۔ اس سینٹر میں لائے جانے والے زیادہ تر مریض غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں قواعد و ضوابط سمجھانا ایک بہت ہی کٹھن کام ہوتا ہے۔ سسٹر جینین دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ان مریضوں کو صفائی ستھرائی کےبارے میں سمجھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر مریض کو صفائی کی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو تو پھر علاج کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا سب سے اہم چیز جو یہاں سکھائی جارہی ہے وہ ہیں احتیاطی تدابیر (preventive medicine)۔ اس طریقے سے یہ اسکول ایک تربیت گاہ ہوتے ہوئے بھی صحت ِ عامہ میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

تعلیم و تربیت کے علاوہ یہاں کئی ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اس سینٹر میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو رہائش کی سہولت بھی مہیا کی جاتی ہے۔ یہاں تیار کی جانے والی اشیاء یورپ بھر میں بھیجی جاتی ہیں۔ سسٹر جینین کہتی ہیں کہ اس طریقے سے یہ ایک با عزت روزگارکا ذریعہ بھی ہے۔

رپورٹ: رفعت سعید

ادارت : عدنان اسحاق