1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Dachau کا اذیتی کیمپ

24 اپریل 2006

اڈولف ہٹلر کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی 6 ہی ہفتے گذرے تھے کہ 22 مارچ کو باویریا حکومت کے پولیس سربراہ Himmler کے ایک فرمان کے تحت Dachau کا اذیتی کیمپ وجود میں آیا۔ آج کل اِس سابقہ کیمپ میں قائم عجائب گھر کی ترجمان بتاتی ہیں: ”کام آزادی دیتا ہے۔ یہ نازیوں کا محض پراپیگنڈا تھا۔ یہاں آنے والے قیدیوں کو کو ئی آزادی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ یہ جھوٹ پر مبنی تھا۔“ حال ہی میں اِس کیمپ کے دورے کے بعد مرتب کیا گیا جائزہ۔

https://p.dw.com/p/DYLi
Dachau کیمپ میں مرنے والوں کی لاشیں
Dachau کیمپ میں مرنے والوں کی لاشیںتصویر: AP

یہ 30 جنوری سن 1933ء کی بات ہے، جرمنی میں چانسلر کے عہدے پر اڈولف ہٹلر براجمان ہوا تھا۔ ہٹلر نے اپنے آئندہ اقدامات کی پیش بندی کرتے ہوئے تقریباً ایک ماہ بعد 28 فروری کو وزیر داخلہ Frick اور وزیر اِنصافDr. Gürtner کے تعاون سے ایک قانونی مسودہ اُس وقت کے جرمن صدر von Hindenburg کے دستخط سے جاری کیا۔ اُس میں، اُس وقت کے جرمن دستور کی کچھ شقوں کو تاحکم ثانی معطل کر دیا گیا۔

اِس معطلی کے بعد فردِ واحد کی آزادی رائے، آزادی صحافت، مِل جُل کربیٹھنا یا کوئی گروپ تشکیل دینا ممنوع قرار پایا۔ اِسکے ساتھ ساتھ خطوں، تارگھر سے ارسال کردہ پیغامات اور ٹیلی فون پر بھی قدغنیں لگ گئیں۔ پولیس کو گھروں پر چھاپے مارنے کی کھلی اجازت مِل گئی۔ جائیداد کی ضبطی بھی حکومت کی خواہش کی تابع ہو گئی۔ مزید یہ کہ کوئی بھی شخص، جو عوام اور حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہو گا، اُسے چھ سال تک کی سزائے قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہٹلر کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی چھ ہفتے ہی گزرے تھے کہ 22 مارچ کو باویریاحکومت کے پولیس سربراہ Himmler کے ایک فرمان کے تحت Dachau کا مشقتی کیمپ معرضِ وجود میں آیا۔ کیمپ میں رہنمائی کرنے والی خاتون رینابرول بتاتی ہیں:
” اِس مقام پر سن 1916ءمیں ایک اسلحہ فیکٹری قائم کی گئی تھی جو1918 ءکے ورسائی معاہدے کے تحت بند کر دی گئی تھی۔ 20ءکے عشرے میں یہ خالی پڑی رہی۔ اذیتی مرکز کے قیام کے لئے نازیوں کو یہ جگہ اِنتہائی مناسب لگی تھی۔ پرانی بلڈنگ میں کمانڈنٹ کا دفتر قائم کیا گیا۔ یہ بنیادی طور پر نازی عہد میں ایک رول ماڈل تھا کیونکہ یہاں پر سیکیورٹی کارندوں کو تربیت دی جاتی تھی اور وہ بعد میں دوسرے اذیتی مراکز میں تعینات کر دئے جاتے تھے۔“

Himmler کے حکم نامے کے مطابق اِس میں 6 ہزار قیدی رکھے جا سکیں گے۔ مزید یہ تھا کہ تمام کمیونسٹ اور حکومت مخالف افراد کو یہاں قید کیا جائے گا اور اُن کو رہا اِس لئے نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ رہا ہوتے ہی دوبارہ حکومت مخالف عوامل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اِن کوProtective Custody یا حفاظتی مقاصد کے تحت حراست میں رکھے جانے والے قیدی قرار دیا گیا تھا۔

یکم اکتوبر سن 1933ءکو Dachau پر خصوصی جیل کے ضوابط کا نفاذ ہو گیا۔اِس کی شق نمبر گیارہ میں بیان کیا گیا تھا : ”ہر وہ شخص جو کام پر ہو گا، خواہ وہ رہائشی کوارٹروں میں کام کر رہا ہو یا کچن، ورکشاپس یا مقاماتِ حاجت یا پھر سستانے کے مقامات پر، اِن تمام جگہوں پر اشتعال انگیز بیانات یا تقریریں جو قیدیوں کے جذبات کو بھڑکائیں یا قیدیوں کو مجبور کریں کہ وہ کیمپ انتظامیہ کے خلاف علم بغاوت بُلند کریں، ایسے تمام کاموں کی مناعی ہے۔ کیمپ سے باہر اطلاعا ت یا معلُومات کی فراہمی جس سے حکومت مخالف کوئی پروپیگنڈا کر سکیںبھی ممنوع ہے اور کیمپ کے اندر کسی قسم کے پیغام کی ترسیل، خواہ وہ اشاروں سے یا کیمپ میں نصب روشنی کے بلب کے ذریعہ ہو، اِس کی بھی اِجازت نہیں ہوگی۔ جیل سے باہر رابطے اُستوار کرنا یا بھاگنا یا اِس میں مدد کرنا بھی جرم ہو گا اور اِن جرائم کے مرتکب افراد انقلابی قانُون کی زد میں آئیں گے اور واجبِ سزا ہیں جو پھانسی بھی ہوسکتی ہے۔“

یہ وہ قانونی دستاویز ہے، جس نےDachau کے مشقتی کیمپ کی ہیئت ہی بدل دی اور پھر نگہبانوں نے اذیت اور موت کے پروانوں پر دستخط کرنے شروع کردئیے۔ کیمپ سے بھاگ جانے والے ایک قیدی Hans Beimler نے بعد میں یہ رپورٹ کیا کہ اِس دستاویز کے نفاذ کے بعد چار ہفتوں کے اندر اندر پچاس قیدیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اذیتی مراکز کے حوالے سے لائے جانے والے قیدیوں سے نازی عہد کے مختلف منصوبوں کی تکمیل کے لئے بیگار لی جاتی تھی۔ اِس میں دفاتر کی تعمیر سے لے کر اسلحہ ساز فیکٹریوں میں دِن رات کام کرنا شامل تھا۔ تمام مشقتی مراکز پر یہ درج ہوتا تھا کہ کام آزادی دیتا ہے۔

Dachau کے اذیتی مرکز میں قائم عجائب گھر کی ترجمان رینا برول بتاتی ہیں: ”کام آزادی دیتا ہے۔ یہ نازیوں کا محض پراپیگنڈا تھا۔ یہاں آنے والے قیدیوں کو کو ئی آزادی نصیب نہیں ہوتی تھی۔ یہ جھوٹ پر مبنی تھا۔“

محققین کے مطابق اگلے بارہ سال تک Dachau میں موت کا کھیل جاری رہا اور 32 سے لے کر 40 ہزار تک انسان ہلاک کر دئے گئے۔ بقول رینا برُول یہ ایک بہت خاص جگہ ہے۔ اِس کو دیکھتے ہوئے حواس پر قابُو رکھنا ہو گا۔ اِس کو بیان کرنے کے لئے مناسب الفاظ کا حصول خاصا مشکل کام ہے۔ یہاں کا پیغام ہے کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔

جرمن صوبے باویریا کے مرکزی شہر میونخ کے پہلُو میں آباد Dachau کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی جو تصویر آویزاں نظر آتی ہے، وہ اِس کیمپ کے انتہائی گھناونے اور تاریک پہلُو کو واضح کرتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران، زمانہ سن 1941ءکا ہو گا، تب قیدیوں پر تشدد اور ظلم کے باب رقم کرنے میں تیزی آ گئی۔

تب جرمنی میں خزاں کا موسم تھا اورتمام بندی خانوں میں قیدیوں کی زندگیاں پت جھڑکے پتوں کی مانند ہو گئی تھیں۔ Dachau میں تو اِس عمل میں خاص طور پر تیزی آ گئی اور ہلاک ہونے والے قیدیوں کو نذرِ آتِش بھی کیا جانے لگا۔ لاشیں جلانے والی پرانی بھٹی کی جگہ ایک بڑی اور نئی بھٹی قائم کی گئی۔ اِس کو بیرک ایکس کا نام دیا گیا تھا۔ یہ دونوں بھٹیاں آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں اور آنے والوں کو انسانوں پر اِنسانوں کے ظلم کی رُوداد سناتی ہیں۔

نعش سوزی کی نئی بھٹی سن 1942ء میں تکمیل کو پہنچی۔ پرانی بھٹی میں جلانے والی بھٹیاں دو تھیں جبکہ نئی میں چار لگائی گئی تھیں تاکہ مُردوں کو جلانے میں تسلسل رہے۔ یہ بھٹیاں گیس چیمبروں کے ساتھ بنائی گئی تھیں اور اِن کا نمونہ پولینڈ کے بدنامِ زمانہ اذیتی مرکز Auschwitz کی طرح کا تھا۔ اِن میں سائیکلون بی نامی گیس استعمال ہونا تھی لیکن یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ Dachau کے اذیتی مرکز میں کسی قیدی کو گیس چیمبر میں نہیں بھیجا گیا تھا۔ یہ بھی کہ یہ بھٹیاں صرف مُردوں کو جلانے کے اِستعمال میں لائیں گئیں تھیں۔ البتہ اِن بھٹیوں کی زہریلی گیس سائیکلون بی مردہ قیدیوں کے کپڑوں کو تلف کرنے میں یقیناً اِستعمال ہوئی تھی۔

Dachau میں ہٹلر کی حکومت کی طرف سے شروع کئے گئے صحت کے پروگرام کے حوالے سے ایک جرمن محقق ڈاکٹر سگمنڈ ریشنر نے انسانوں پر اذیت کے نئے باب رقم کئے۔ یہ واقعات ایسے ہیں کہ جو ہمیشہ دِلوں کو دہلاتے رہیں گے۔ اُس نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کو حقائق کے ساتھ مزید تقویت دینے کی خاطر قیدی اِنسانوں پر تشدد کی راہ اپنائی۔ وہ اِن اِنسانوں کو انسان کی بجائے تحقیقی مواد سے تعبیر کرتا تھا۔ میوزیم میں رہنمائی کے فرائض سرانجام دینے والی خاتون اِس حوالے سے بتاتی ہیں :

” قیدی چیمبر میں ڈالے جاتے اور چیمبر کا درجہ حرارت باہر سے کنٹرول کیا جاتا۔ یہ دیکھا جاتا کہ انتہائی زیادہ درجہ حرارت اور انتہائی کم درجہ حرارت پر اِنسان کی حیات میں کیا تبدیلی آتی ہے اور کیا وہ زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر سگمنڈ کی نظر میں تجربات میں استعمال ہونے والے انسانوں کی وقعت ایک معمولی شَے سے زیادہ نہیں تھی۔“

مکافاتِ عمل یہ ہے کہ ڈاکٹر سگمنڈ ریشنر اور اُس کی ادھیڑ عُمر بیوی کو چار جرمن بچوں کے اِغوا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور Dachau ہی میں امریکی فوجوں کی آمد سے تین دِن پہلے اُسے اُس کی بیوی سمیت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، Dachau میں جرمن قیدیوں کی تعداد کم ہوتی گئی اور مقبوضہ ممالک سے لائے گئے قیدی یہاں رکھے جانے لگے۔ یہودی قیدیوں کو دوسرے کیمپوں میں منتقل کیا جانے لگا۔

جرمن صوبے باویوریا میں یہ لازمی ہے کہ سکول کے بچے ہر سال ایک بار اِس اذیتی کیمپ کو دیکھنے جائیں۔ اِس کیمپ میں روزانہ سینکڑوں لوگ تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کو یاد کرتے ہیں۔ اِنہی میں اسکول کے یہ بچے بھی ہوتے ہیں، جو کرید کرید کر گائیڈز سے اُس دور کی باتیں پوچھتے ہیں۔

جرمنی کے ساتھ ساتھ بیرونی دُنیا سے بھی بے شمار لوگ یہ کیمپ دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ امریکی شہر شکاگو سے آئے ہوئے ایک شخص نے ڈوئچے وَیلے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہا :
” میں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت پریشان ہوا ہوں، جو کچھ یہاں ہوا، اُسے بیان کرنا مُشکل ہے۔“

کینیڈا میں آباد سوئٹزر لینڈ کی ایک خاتون کا کہنا تھا : ”یہ دیکھ کر محسوس ہوا ہے کہ یہاں لوگ کس حد تک جنونی تھے۔ زندگی ویسے ہی مشکل ہوتی ہے اور اِن لوگوں نے اِس کو کتنا مشکل تر بنا ڈالا تھا۔“

Dachau میں آئی ہوئی جنوبی افریقہ کی ڈائنا کا کہنا تھا : ”یہ بہت مُشکل ہے کہ سمجھ میں آئے کہ یہاں لوگ کس طرح زندہ رہے۔یہ ناقابلِ یقین ہے۔“

بھارتی ریاست کیرالا کی ایک خاتون نے اِس کیمپ کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ہوئے کہا : ”بچپن سے اِس دور کے بارے میں پڑھا، سنا اور فلمیں بھی دیکھیں، لیکن اِس جگہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تو میں بہت زیادہ پریشان ہو گئی ہوں۔“

Dachau کے اذیتی مرکز کے وسط میں 29 اپریل سن 1945ء کو داخل ہونے والی امریکی اَفواج نے قیدیوں کو رہائی دلوائی۔ کئی قیدیوں کا کہنا ہے کہ یہ اُن کا دوسرا جنم تھا۔ امریکی فوجیوں نے نعش سوز بھٹیوں سے جو راکھ اکٹھی کی، اُسے اذیتی مرکز کے وسط میں دفن کر دیا گیا۔ اِسی جگہ یہ پیغام کئی زبانوں میں درج ہے کہ ایسا پھر کبھی نہ ہو۔