1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: افغان مہاجرین کو کڑے حالات کا سامنا

20 اپریل 2022

جب خیر ولی کو معلوم ہوا کہ طالبان نے افغان آرمی کے سپاہیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے تو اس نے اپنی حاملہ اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔

https://p.dw.com/p/4A8Ig
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance

23 سالہ خیر ولی کی طرح کئی افغان شہریوں کے لیے ملکی بد امنی اور طالبان کے سخت گیر رویے سے فرار ہونے کی لیے پاکستان سے سب آسان منزل تھی۔

لیکن وہ ہزاروں افغان جو گزشتہ اگست طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بسوں، ٹیکسیوں، پیدل یا پھر خچروں پر سوار ہو کر پاکستان پہنچے، انہیں پاکستان میں مبینہ طور پر کڑے حالات اور غیر دوستانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پولیس کا نامناسب رویہ

ولی کا کہنا ہے کہ انہیں پشاور میں پولیس کے سخت رویے کا سامنا ہے، ''پولیس ہماری عزت نہیں کرتی۔ وہ ہمیں مہاجر کہہ کر بلاتی ہے، ہمیں گالیاں دی جاتی ہیں، ہمیں بہت برا لگتا ہے۔‘‘

عبدالرحمان خان پشاور میں پولیس کے نائب سپریٹینڈنٹ ہیں۔ خان کے مطابق پولیس حکومت کے افغان شہریوں کو ہراساں نہ کرنے کے احکامات پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتی ہے۔ خان کے مطابق ان افغان شہریوں کو تلاش کیا جاتا ہے جن کے پاس پاکستان کا ویزہ نہیں ہے اور ایسے افراد کو واپس افغانستان بھیج دیا جاتا ہے۔

جب پولیس کی جانب سے ولی کو روکا گیا تو اس کے کاغذات میں اس کے پاکستانی ویزے کی معیاد ختم ہو چکی تھی لیکن اس کے پاس ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کا کاغذ تھا، جو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

مالی مشکلات

جب ولی پاکستان پہنچا تو اس کے پاس کچھ پیسے تھے لیکن اسے حکومت کی جانب سے روزگار تلاش کرنے میں کوئی مدد حاصل نہیں ہوئی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل وہ سولہ ہزار افغانی کماتا تھا جو کہ 184 ڈالر کے برابر رقم ہے۔

اب  اسے پشاور میں شیشہ بنانے والی ایک دکان میں کام تو مل گیا ہے لیکن وہ مشکل سے اپنے گھر والوں کو خوراک مہیا کر پاتا ہے۔ بغیر دستانے پہنے شیشہ کاٹتے ہوئے ولی کا کہنا تھا، ''یہاں زندگی بہت مشکل ہے، وہاں میرا پنا گھر اپنی زمین تھی۔‘‘

پاکستان میں تعلیم کے حق سے محروم افغان بچے

کیا افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں؟

پاکستان میں پہلے ہی تین ملین افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے قریب نصف یہیں پیدا ہوئے ہیں لیکن انہیں مہاجر کا درجہ ہی دیا گیا ہے۔

گزشتہ سال حکومت نے چودہ لاکھ افغان مہاجرین کے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کیا اور انہیں ریفوجی کارڈز دیے گئے، جس کے ذریعے انہیں بینکوں اور صحت کے شعبے کی سہولیات حاصل کرنا آسان ہو گیا۔

لیکن اب بھی پاکستان میں قریب پندرہ لاکھ افغان مہاجرین غیر رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں وہ ایک لاکھ شہری شامل نہیں ہیں جو 2021 کے آغاز سے پاکستان پہنچے ہیں۔

پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ افغان شہریوں کی اصل تعداد کئی گنا زیادہ ہوگی کیوں کہ بہت سے افغان شہری پاکستان کے ساتھ طویل سرحد کے کئی حصوں سے پاکستان پہنچتے ہیں اور یہاں آکر اپنے آپ کو رجسٹر نہیں کرواتے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کی نئی لہر کو ابھی مہاجرین کا درجہ نہیں دیا ہے بلکہ انہیں ٹرانزٹ ویزے دیے گئے ہیں۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کے پاس ان کی رجسٹریشن، خوراک اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی جامع پروگرام نہیں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی وزارت خارجہ خاموش ہے۔

ب ج، ع ب (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)