1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

1945ء: یورپی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ

عدنان اسحاق5 مئی 2015

آٹھ مئی 1945ء کو نازی جرمن افواج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے تاہم اس کے باوجود بھی جرمنی میں ہر جانب امن قائم نہیں ہوا تھا۔ اس دن جرمن شہریوں کی بڑی تعداد کو یہ احساس تک نہیں تھا کہ وہ آزاد ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FKJF
Picture-Teaser Kapitulation und Neubeginn

سرکاری دستاویزات پر درج تاریخ کے مطابق آٹھ مئی 1945ء کو رات گیارہ بج کر پینتالیس منٹ پر فیلڈ مارشل ولہیلم کائٹل نے جرمن افواج کے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم کائٹل نے نو مئی کو اُس حکم نامے کے نیچے اپنا نام لکھا تھا اور محض روایتی طور پراُس دستاویز پر ایک مرتبہ پھر دستخط کیے تھے، جس پر ایک دن قبل فرانسیسی شہر رائم میں اتفاق رائے ہو چکا تھا۔ رائم میں جنرل الفریڈ یولڈ نے اعلان کیا تھا، ’’جرمن بری، بحری اور فضائی افواج ملک کے اندر اور باہر اتحادی اور سوویت دستوں کے سامنے فوری طور پر غیر مشروط ہتھیار ڈال دیں۔‘‘ اس حکم نامے کے مطابق آٹھ مئی کو رات گیارہ بج کر ایک منٹ پر تمام جنگیں کارروائیاں روک دی گئی تھیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ سوویت رہنما جوزف اسٹالن کا اصرار تھا کہ اِس طرح کی ایک تقریب برلن میں بھی منعقد کی جائے کیونکہ رائم میں سوویت افواج کے اعلٰی عہدیدار شریک نہیں ہو سکے تھے۔ جرمن روسی میوزیم کی مارگوٹ بلانک کہتی ہیں کہ اسٹالن کی یہ خواہش یقیناً ایک اہم کردار ادا کر سکتی تھی۔’’ تاہم برطانیہ نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے سب کی توجہ پہلی عالمی جنگ کی جانب مبذول کرائی، جب جرمن افواج نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے شہری حکومت کو آگے کر دیا تھا تاکہ وہ بعد میں دعوٰی کر سکیں کہ وہ میدان جنگ میں ناقابل شکست رہے تھے۔‘‘

بلانک مزید بتاتی ہیں کہ دوبارہ اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لیے برطانیہ نے اسٹالن کی تجویز پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد برلن کے کارل ہورسٹ نامی علاقے میں جرمن افواج کے ہتھیار ڈالنے کی ایک اور تقریب منعقد ہوئی، جس میں فوج کے اعلٰی عہدیداروں نے شرکت کی۔ بری فوج کی جانب سے فیلڈ مارشل ولہیلم کائٹل ، فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اسٹُمف اور ایڈمرل فریڈےبرگ نے بحریہ کی نمائندگی کی۔ رائم اور کارل ہورسٹ میں ہونے والی یہ تقاریب نازی جرمنی کے صدر کارل ڈؤنٹز کی رضامندی سے ہوئی تھیں۔

تیس اپریل کو اڈولف ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی اور اس کے بعد ڈؤنٹز ہٹلر کے باقاعدہ جانشین بنے تھے۔ ماہر تاریخ یوہانس ہوئرٹر کہتے ہیں، ’’اس موقع پر نازی حکومت نے نہیں بلکہ صرف فوج نے ہتھیار ڈالے تھے۔‘‘ اس کے بعد 23 مئی کو برطانوی افواج نے کارل ڈؤنٹز اور ان کی حکومت کے دیگر اعلٰی عہدیداروں کو گرفتار کیا تھا۔

نازی حکومت کے دور میں قائم کیے جانے والے تمام اذیتی مراکز کو آٹھ مئی کو ہی آزاد کرا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک افراتفری کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھرم رہے تھے۔ ان میں سے کچھ تو ایسی حالت میں تھے کہ آزاد ہونے کے چند ہفتوں بعد تک بھی وہ انہی اذیتی مراکز میں موجود رہے۔ نوے سالہ اَیستھر بجارنو اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پہلی مرتبہ میں نے اپنی مرضی سے اکارڈین بجایا تھا۔‘‘ اس سے پہلے انہیں ہمیشہ نازی فوجیوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا تھا۔ ’’یہ میری آزادی تھی، ہمیں علم تھا کہ اب ہم آزاد ہو چکے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید