1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپ انٹرنيٹ جرائم سے کيسے محفوظ رہ سکتے ہيں؟

11 مارچ 2018

کسی کا پاس ورڈ چوری ہو جانا، آن لائن بينکنگ ميں اکاؤنٹ سے رقم غائب ہو جانا يا پھر سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر اکاؤنٹ ہیکنگ اور پھر اس کا غلط استعمال، جانیے اس دور ميں آپ ايسی وارداتوں سے کيسے بچ سکتے ہيں؟

https://p.dw.com/p/2u7Fm
Pakistan Islamabad Internetcafe Qandeel Baloch Fans
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

پاکستانی ذرائع ابلاغ پر پچھلے سال کے اواخر ميں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر ميں انٹرنيٹ استعمال کرنے والے صارفين کی تعداد پينتيس ملين سے زائد تھی۔ ان ميں لگ بھگ اکتيس ملين سے زائد صارفین فيس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور سماجی رابطوں کی ديگر ويب سائٹس پر فعال ہيں۔ پاکستان ميں اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کی تعداد قريب چاليس ملين ہے اور ان ميں سے تقريباً اٹھائيس ملين سماجی رابطوں کی ويب سائٹس تک رسائی اپنے اسمارٹ فونز کے ذريعے حاصل کرتے ہيں۔

عالمی سطح پر انٹرنيٹ اور سوشل ميڈيا کے پھيلاؤ کے ساتھ ساتھ آن لائن جرائم بھی بڑھتے جا رہے ہيں۔ 2016ء کے امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ روسی مداخلت اس کی ايک مثال ہے، جس کی تحقيقات اس وقت بھی جاری ہيں۔ عام صارفين مختلف صورتوں ميں ہيکنگ کی وارداتوں سے متاثر ہوتے رہتے ہيں اور ديگر ممالک کی طرح پاکستان ميں بھی اس کے انسداد کے ليے اقدامات جاری ہيں۔

پاکستان ميں ’پنجاب کميشن آن دا اسٹيٹس آف وويمن‘ (PCSW) کی سربراہ فوزيہ وقار نے حال ہی ميں کہا تھا کہ ملک ميں سائبر کرائمز، در اصل عورتوں کے خلاف جرائم کی ايک صورت ہے۔ پاکستان کے وفاقی تحقيقاتی ادارے (FIA) اور (PCSW) کے درميان مفاہمت کی ايک يادداشت پر دستختط ہوئے، جس کے مطابق ايف آئی اے ملک ميں ايسے جرائم کی روک تھام کے ليے زيادہ فعال کردار ادا کرے گا۔ اليکٹرانک کرائمز ايکٹ 2016ء پر عمل در آمد يقينی بنانے کے ليے ’پنجاب وويمنز ہيلپ لائن‘ (1043) کے اشتراک کی کوششيں بھی جاری ہيں۔

Pakistan, Youtube auf Smartphone
تصویر: AFP/Getty Images/B. Khan

تاہم چند احتياطی تدابير اپناتے ہوئے صارفين خود بھی آن لائن يا سائبر جرائم سے بچنے کی کوششيں کر سکتے ہيں۔

اپنا پاس ورڈ دوسروں کی پہنچ سے دور رکھيں

اکثر لوگ پاس ورڈ کے ليے اپنے کسی چاہنے والے کے نام، اپنے مکان کے نمبر يا سڑک کے نام کا انتخاب کرتے ہيں، يہ غلط رجحان ہے۔ پاس ورڈ ميں بڑے اور چھوٹے دونوں حروف ہونے چاہييں اور اس ميں ہندسوں کا استعمال بھی اسے محفوظ بنانے ميں مدد فراہم کرتا ہے۔ ايک اور عام غلطی يہ ہے کہ لوگ بھول جانے کے خوف سے اپنا پاس ورڈ کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر کمپيوٹر کے آس پاس کہيں چپکا ديتے ہيں، اس سے گريز کيجيے۔

مختلف اکاؤنٹس اور مقاصد کے ليے يکساں پاس ورڈ

کچھ لوگ پيچيدگيوں سے بچنے کے ليے مختلف اکاؤنٹس اور ويب سائٹس کے ليے ايک ہی پاس ورڈ استعمال کرتے ہيں، جو ايک غلط فعل ہے۔ يہ عمل ہيکرز کے کام کو انتہائی آسان بنا ديتا ہے۔

کمپنيوں ميں کسی پروگرام کے ليے ايک پاس ورڈ

اکثر کمپنيوں ميں يہ رجحان بھی ديکھا گيا ہے کہ کسی ايپليکيشن يا پروگرام کے ليے متعدد ملازمين ايک ہی پاس ورڈ استعمال کرتے ہيں۔ ايسے پاس ورڈز کو ورڈ يا ايسی ہی کسی فائل پر کمپيوٹر ميں لکھ ديا جاتا ہے، جس تک رسائی سب کو ميسر ہوتی ہے۔ ایسا کرنا ہيکرز کے ليے بھی انتہائی مفيد ثابت ہوتا ہے۔

انجان ای ميل يا فائل بالکل نہ کھوليں

ہيکنگ کا ابتدائی حملہ اکثر اسی صورت ہوتا ہے۔ کسی صارف کو ای ميل موصول ہوتی ہے، جس ميں کسی فائل کو کھولنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ متعلقہ فائل اگر ’ميل ويئر‘ يا وائرس ہو، تو اس پر کلک کرنے سے وہ کمپيوٹر اور اس پر موجود تمام مواد تک رسائی حاصل کر ليتا ہے۔

ايڈمنسٹريٹرز کی بے پروائی

ہيکرز اکثر کوشش کرتے ہيں کہ ايڈمنسٹريٹر اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کريں۔ ايسی صورت ميں اکثر ہوتا ہے کہ جب کسی کمپنی کی ويب سائٹ يا کسی مخصوص کمپيوٹر کو نشانہ بنايا جا رہا ہو۔ عموماً ايڈمنسٹريٹر کے حقوق زيادہ ہوتے ہيں اور ہيکر اگر وہ حاصل کر ليں، تو وہ متعلقہ کمپيوٹر يا اسمارٹ فون کی تمام ايپليکيشنز تک رسائی حاصل کر ليتے ہيں۔

سافٹ ويئر اپ ڈيٹ

يہ ايک ايسا عمل ہے، جسے لوگ عموماً غير ضروری سمجھ کر ٹالتے رہتے ہيں، جو کہ ايک غلطی ہے۔ سافٹ ويئر اپ ڈيٹس ميں نئے نئے وائرسز کے توڑ ہوتے ہيں اور اگر صارفين بروقت انہيں اپنے کمپيوٹرز اور اسمارٹ فونز پر ڈاؤن لوڈ کر ليں تو ہیکنگ کی کئی وارداتوں سے بچا جا سکتا ہے۔

پاکستانی خواتین کی آن لائن بزنس میں ترقی

ع س/ ا ا، نيوز ايجنسياں