1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کا دورہ، صحافی کو نوکری پر بحال کرنے کا مطالبہ

4 جون 2022

پاکستانی سرکاری ٹی وی کے اس اینکر کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا، جس نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ مسلم یہودی تعلقات کو فروغ دینے والی غیر سرکاری امریکی تنظیم نے متاثرہ صحافی کی نوکری بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4CHZX
Bildkombo Flaggen Pakistan und Israel

امریکہ کی غیرسرکاری تنظیم 'مخیرق اینشی ایٹیو‘ ایک عرصے سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین بہتر تعلقات کے لیے سرگرم ہے۔ اس تنظیم نے جمعے کے روز پاکستانی حکومت سے اپیل کی ہے کہ حال ہی میں پاکستانی سرکاری ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے برطرف کیے جانے والے صحافی کو ان کی ملازمت پر بحال کیا جائے۔

پاکستانی صحافی احمد قریشی نے حال ہی میں امریکی غیرسرکاری تنظیم کے تعاون سے یروشلم کا دورہ کیا تھا، جہاں ان کی ملاقات اسرائیلی صدر اسحاق ہیرزوگ سے بھی ہوئی تھی۔ احمد قریشی اس پندرہ رکنی وفد کا حصہ تھے، جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اس وفد میں زیادہ تر وہ پاکستانی شامل تھے، جو امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔

مسئلہ فلسطین کی وجہ سے اسرائیل اور پاکستان کے مابین ابھی تک سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو سکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس دورے کی خبریں منظرعام پر آنے کے فورا بعد ہی اس وفد پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

گزشتہ پیر کے روز پی ٹی وی کی طرف سے ایک ٹویٹ کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ 'ذاتی حیثیت میں‘ اسرائیل کا دورہ کرنے والے صحافی قریشی کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔

اس دورے کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان بھی شامل تھے۔ ان کا دعویٰ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس دورے کا مقصد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا تھا تاہم یہ وفد اس دعوے کو سرے سے ہی مسترد کرتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی نئی حکومت نے بھی بیان جاری کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اس وفد کی سربراہ انیلا علی تھیں، جو کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں اور واشنگٹن میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مقصد فقط مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین مصالحت کی ایک کوششش تھا۔

خورشید قصوری اور اسرائیلی وزیر خارجہ کی خفیہ ملاقات کی کہانی

مخیریق انیشی ایٹو کی مینیجنگ ڈائریکٹر ایلی کوہنم کا جمعے کے روز کہنا تھا، ''قریشی سیاسی ایجنڈے کا ہدف بنے ہیں حالانکہ انہوں نے ایک صحافی کی جاب سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔‘‘ ان کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، '' عمران خان کی جانب سے تنقید کے بعد قریشی کو قتل کی دھکمیاں موصول ہوئیں۔ کسی بھی اچھے صحافی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ زمینی حقائق اور مسائل کو سمجھنے کے لیے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن حاصل کرے۔‘‘

بعد ازاں جمعہ کو قریشی نے نیوز ایجنسی اے پی کو بھیجے گئے ایک پیغام میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کا دورہ نجی افراد کی طرف سے تھا، '' اس کا پاکستان یا پاکستانی پالیسیوں سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ میں نے یہ دورہ بطور ایک آزاد صحافی کے کیا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، '' کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے وقتی طور پر اس پر سیاست کرنا اور سیاسی فائدہ اٹھانا دراصل بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘

کوہنم کا کہنا تھا کہ مخیرق انیشی ایٹو ایک نئی این جی او ہے، جس کی کوشش ہے کہ 'مسلمانوں اور یہودیوں میں اتحاد مشترکہ تاریخ اور مشترکہ اقدار پر قائم کیا جائے۔ ہمارے لوگ متحد ہو کر قدیم رشتے کا ایک نیا لکھ باب لکھ سکتے ہیں‘۔

پاکستان اور اسرائیل ماضی میں متعدد مرتبہ سفارتی تعلقات کے قیام کی کوششیں کر چکے ہیں لیکن یہ ابھی تک ناکام رہی ہیں۔

پاکستان کے قومی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک میں  745 رجسٹرڈ یہودی شہری آباد ہیں۔

ا ا / ش ح ( اے پی)