1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد کی پہلی’فارمرز مارکیٹ‘

شکور رحیم ، اسلام آباد28 جنوری 2014

دارلحکومت اسلام آباد کی پہلی 'فارمرز مارکیٹ' کے منتظمین کا دعوی ہے کہ یہاں فروخت کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء سو فیصد قدرتی اجزاء اور طریقہ کار سے تیار کی جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ay8D
تصویر: DW/S. Raheem

اسلام آباد کی پہلی 'فارمرز مارکیٹ' مارگلہ کی حسین پہاڑیوں کے بالمقابل واقع پوش سیکٹر ایف سیون کے ایک کشادہ گھر کے سبزہ زار میں قائم کی گئی ہے۔ پچپن سالہ ریحانہ فضلی نے اس مارکیٹ میں اپنے چھوٹے سے سٹال پر کھانے پینے کی مختلف اشیاء بڑے سلیقے سے سجا رکھی ہیں۔ وہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے گاہکوں کا استقبال کرتی ہیں اور ان کو اشیاء کی قیمتیں بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی تیاری کے چند مراحل سے بھی آگاہ کر رہی ہیں۔ ریحانہ فضلی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’ پھل جن سے مربہ جات بنتے ہیں وہ زیادہ تر میں یہاں ہی سے خریدتی ہوں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس مارکیٹ میں قدرتی طریقے سے پیدا کی گئی چیزوں کو رکھیں۔ تو میرے پاس بریڈ، پنیر، جیمز اور پیسٹریاں وغیرہ ہوتی ہیں ‘‘۔

فارمرز مارکیٹ کے بیچوں بیچ لگا ہوا ایک اور سٹال یہاں پر آنے والوں کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ ہر کوئی یہاں ٹوکری میں سجائی گئی جرمن بریڈ خریدنا چاہتا ہے۔ جرمنی کے شہر میونخ سے تعلق رکھنےوالے کلاؤس یولر اس سٹال کے مالک ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ڈیویلپمنٹ کنسلٹنٹ یولر گزشتہ تیرہ برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔اسی طویل قیام اور ایک پاکستانی خاتون کو شریک حیات بنانے کے سبب یولر روانی سے اردو بھی بول سکتے ہیں۔ مارکیٹ میں جرمن بریڈ کی ہاتھوں ہاتھ فروخت پر وہ کافی مطمئن اور خوش بھی ہیں۔ اپنی کموت نامی بریڈ کی تعریف کرتےہوئے یولر نے کہا ’’ میں نے کموت ادھر چک شہزاد میں لگایا ہے۔ اس کے بیج میں جرمنی سے لایا تھا۔ دوسرا یہ ایک نئی چیز بیف اونین گارلک بریڈ ہے۔ ہنٹر بیف کا جوس اس کے آمیزے میں شامل کیا ہے اور تیسری ہماری ٹیڈ مارک وا لنٹ بریڈ ہے اور میرا کاروبار بھی اچھا چل رہا ہے۔ پچھلی مرتبہ میں نے پندرہ منٹ میں 20 ڈبل روٹیاں فروخت کر دی تھیں ‘‘۔

Pakistan Bauernmarkt in Islamabad
جرمن شہری کلاؤس یولر گزشتہ تیرہ برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیںتصویر: DW/S. Raheem

ثقافتی اور سماجی تقاریب اور ایونٹس کے انعقاد کرانے کی شہرت رکھنے والی " کچھ خاص" نامی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک حشمت خان کا کہنا ہے کہ اس منفرد مارکیٹ کے انعقاد کا مقصد لوگوں کو قدرتی غذا کے فوائد سے آگاہ کرنا اور کسانوں اور خریداروں کو ایک چھت تلے اکٹھا کرنا ہے۔ لوگوں کی جانب سے ملنے والی پذیرائی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پرحشمت خان نے کہا ’’بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے ۔ یہاں جتنے بھی فارمرز ہیں ان کے اپنے فارم ہیں۔ جتنی بھی اشیاء ہیں انہیں مناسب وقت، موسم اور پانی کا خیال رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے‘‘۔

ابتدائی طور پر اس مارکیٹ کو ہفتے میں صرف ایک دن (ہفتہ ) منعقد کیا جا رہا ہے۔ یہاں کا رخ کرنے والوں میں زیادہ تعداد غیر ملکی گاہکوں کی ہے، جن میں زیادہ تر اسلام آباد میں قائم سفارت خانوں میں تعینات ہیں۔ صبح اٹھ کر مارکیٹ کا رخ کرنے والوں کے لیے یہاں "آرگینک ناشتے" کا بھی بندوبست کیا گیا ہے اور یہ ناشتہ تیار کررہی ہیں اسلام آباد میں مقیم ایک بھارتی صحافی کی اہلیہ روچیرا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ناشتے کی اہمیت اور افادیت سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور یہ دوسرے لوگوں کو بھی بتانا چاہتی ہیں۔ ’’ ہمارا آئیڈیا ہے کہ جو اشیاء کسان لا رہے ہیں ان سے ہم ناشتہ تیار کریں اور لوگوں کو ناشتہ کرانے کے ساتھ ساتھ انہیں بتائیں کہ یہ سب بھی بن سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی غذائی اہمیت کیا ہے؟۔

Pakistan Bauernmarkt in Islamabad
مارکیٹ کا رخ کرنے والوں کے لیے یہاں "آرگینک ناشتے" کا بھی بندوبست کیا گیا ہےتصویر: DW/S. Raheem

روچیرا سمیت اکثر غیر ملکیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سکیورٹی کی خراب صورتحال کے باوجود وہ اس علاقے اور مارکیٹ کی سکیورٹی سے قدرے مطمئن ہیں۔ البتہ یہاں آنے والے کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں یہاں کی اشیاء عام مارکیٹ کے مقابلے میں مہنگی لگ رہی ہیں۔ اس بارے میں مارکیٹ میں ڈیری مصنوعات فروخت کرنے والے آفتاب صدیقی کہتے ہیں’’ آرگینک کی بات کریں تو اس کی پیداوار کم اور لاگت زیادہ ہوتی ہے۔ ہائبرڈ بیج سےپیداور تو بہت ہوتی ہے لیکن یہ قدرتی طریقہ نہیں ہےتو یہ اس کا تھوڑا سا مسئلہ ہے ۔گاہک آکر کہتا ہے کہ بازار میں دودھ 80 سے 100 روپے فی لیٹر فرخت ہو رہا ہے اور آپ ڈیڑھ سو روپے لیٹر دے رہے ہیں‘‘۔

اسی مارکیٹ میں ہماری ملاقات ملک کے معروف ماہر اقتصادیات اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر زبیر سے بھی ہوئی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مارکیٹ کے انعقاد کا خیال اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ اگر حکومت ایسے بازاروں کا انعقاد سرکاری سر پرستی میں کرائے تو اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ’’ کسان براہ راست مال صارف کو بیچتا ہے ایک تو اچھی اور تازہ چیز مل جاتی ہے ۔ قیمت صارف کے لیے مارکیٹ سے کم اور کسان کے لیے منڈی سے زیادہ ہوتی ہے تو اس طرح دونوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح جو مڈل مین آج کل اس ملک کو لوٹ رہے ہیں وہ بیچ میں سے نکل جاتے ہیں‘‘۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ اس مارکیٹ میں آنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے وہ اس کا انعقاد ہفتے کے ساتوں دن کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔