1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مریضوں کا علاج بھارتی ہسپتالوں میں

وصلت حسرت نظیمی، نئی دہلی / امتیاز احمد7 دسمبر 2013

ماہانہ ہزاروں افغان علاج کی غرض سے بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ افغانستان میں علاج کی غیر مناسب سہولیات، علاج کے غلط طریقہ ءکار اور ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1AUiO
تصویر: dapd

دہلی کے ایک ہسپتال میں بیڈ پر لیٹے ہوئے افغان مریض محمد نبی کا کہنا تھا، ’’ افغان ڈاکٹروں نے ٹیومر کی تشخیص کی اور پھر فوراﹰ میرا آپریشن کر دیا۔‘‘ اس 56 سالہ شخص کا تعلق افغانستان کے شمالی صوبے بلخ سے ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’ میرے دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے علاج کے لیے بھارت جانا چاہیے۔ یہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے کبھی ٹیومر تھا ہی نہیں۔ میرے ساتھ دھوکا ہوا اور بدقسمتی سے یہ افغانستان میں عام بات ہے۔‘‘

ہسپتالوں کا کاروبار بڑھتا ہوا

بھارت کے تمام بڑے ہسپتالوں میں افغان چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کئی مردوں اور عورتوں کے ہمراہ مترجم بھی ہوتے ہیں۔ نئی دہلی میں بھی افغان مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نئی دہلی کے مضافات میں واقع علاقے لاجپت نگر کو ’’چھوٹا افغانستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں افغان باشندوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ہسپتالوں نے اپنے مریضوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے رہائش کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔

Afghanistan Arzt
تصویر: dapd

بھارت میں افغانستان کے نائب سفیر اشرف حیدری کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ روزانہ تقریباﹰ ایک ہزار کے قریب افغان باشندے بھارت آتے ہیں اور ان میں سے تقریباﹰ 70 فیصد علاج کروانا چاہتے ہیں۔‘‘

حیدری کے بقول بھارت آنے والے زیادہ تر افغان باشندوں کا اپنے افغان ڈاکٹروں کے ساتھ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں رہا ہوتا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ افغانستان میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے اور وہاں کا معیار بھی کم ہے۔ وہاں بہت سے آپریشن تو کیے ہی نہیں جا سکتے۔‘‘ افغان وزارت صحت کی معلومات کے مطابق بیرون ملک علاج کروانے والے افغان باشندے سالانہ 240 ملین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔

مہنگا علاج اور لسانی رکاوٹ

افغان مریضوں کے لیے بھارت کا سفر نہ صرف تھکا دینے والا ہے بلکہ مہنگا بھی ہے۔ ہوائی جہاز، ہوٹل، مترجم اور علاج پر خرچ ہونے والی رقم کئی ہزار ڈالر تک جا سکتی ہے۔ بھارت میں علاج کروانے والے افغان باشندے یا تو امیر ہوتے ہیں یا پھر اپنی جائیداد کا کچھ حصہ بیچ کر آتے ہیں۔

کئی مترجموں نے ہسپتال انتظامیہ سے کنٹریکٹ کر رکھے ہیں۔ بھوپندر بھی ان میں سے ایک ہیں۔ بھوپندر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ کاروبار بہت اچھا چل رہا ہے۔ میں ماہانہ 35 ہزار بھارتی روپے کما لیتا ہوں۔ ہر ہفتے تقریباﹰ اس ایک ہسپتال میں 150 سے 200 تک افغان مریض آتے ہیں۔‘‘

افغانستان کے مغربی صوبے ہرات سے تعلق رکھنے والی ہُما اپنے اہلخانہ سمیت بھارت پہنچی ہیں تاکہ اپنے 12 سالہ بچے کے گلے کے ٹانسلز کا علاج کروایا جا سکے۔ وہ کہتی ہیں، افغان ڈاکٹروں نے میرے بیٹے کو دس مختلف قسم کی اینٹی بیوٹکس دیں، جس سے وہ مزید کمزور ہو گیا تھا۔ اب بھارتی ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اسے الرجی ہے اور اب اس کی صحت بھی پہلے سے بہتر ہو رہی ہے، جس سے وہ بہت خوش ہیں۔‘‘

افغان نظام صحت میں بہتری ضروری

ہُما اپنے بیٹے کو علاج کے لیے ہمسایہ ملک پاکستان یا ایران بھی لے جا سکتی تھیں لیکن کئی افغانوں کی طرح انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے افغان ٹیلی وژن پر ایسے کئی پروگرام دیکھے ہیں، جن میں دکھایا گیا ہے کہ بھارتی ہسپتالوں میں افغان مریضوں کے ساتھ دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے اور بہتر یہی ہے کہ مقامی ڈاکٹروں سے علاج کروایا جائے۔

ہما کے مطابق یہ صرف حکومتی پروپیگنڈا ہے تاکہ افغان ڈاکٹروں کے مریض کم نہ ہوں۔ بھارت آنے والے افغان باشندوں کے مطابق اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ افغانستان میں علاج کروایا جائے تو افغان نظام صحت کو بہتر بنانا ہوگا، تب تک افغانوں کی علاج کے لیے پہلی ترجیح بھارت ہی رہے گا۔