1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: خواتین کو آگے لانے کی کوششوں کے خلاف سخت مزاحمت

شادی خان سیف، کابل2 جولائی 2015

افغان صدر محمد اشرف غنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو عملی جامه پہناتے ہوئے خواتین کو افغان معاشرے میں زیاده بااختیار کرنے کی پالیسی پر کار فرما ہیں تاہم غنی کو قدامت پسند حلقوں کی سخت مزاحمت کا سامنا هو سکتا هے۔

https://p.dw.com/p/1FrhP
Afghanistan - Frauenrechte
اس سال مارچ میں ایک خاتون کو مبینه طور پر قرآن کی بے حرمتی پر ایک مشتعل ہجوم نے بے دردی سے مار ڈالا تها، اس تصویر میں تھیٹر کے کچھ فنکار وہ منظر دہرا رہے ہیںتصویر: DW/Shadi Khan Saif

صدر غنی کی جانب سے ان کے نائب سرور دانش نے گزشته روز ولسی جرگه (ایوان زیریں) کے سامنے باضابطه طور پر انیسا ہارون نامی خاتون جج کو سپریم کورٹ کی جج کے حیثیت سے متعارف کروایا۔ یه اس ملک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعه ہے که اعلیٰ عدليه کے ليے کسی خاتون کو نامزد کيا گيا هے۔

اس سے قبل صدر غنی اپنی کابینه میں چار خواتین کو شامل کر چکے ہیں۔ وه تمام 25 وزارتوں میں نائب وزیر کی حیثیت میں خواتین کی تقرری اور 34 صوبوں میں سے چار میں خواتین گورنر کی تعیناتی کا بهی عزم ظاہر کرچکے ہیں۔

ان کی اہلیه خاتون اول رولا غنی بهی، سابق خاتون اول کے برعکس، عوامی سطح پر خواتین کے حقوق کے لیے خاصی فعال ہیں۔ وه ملکی و بین الاقوامی سطح پر کئی اہم نشستوں میں افغانستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

بعض مبصرین کی نظر میں اگر صدر غنی نے "بہت زیاده روشن خیالی مسلط" کرنے کی کوشش کی تو ان کا حال بهی شاہ امان الله خان جیسا هو گا، جن کی حکومت کا تخته الٹ دیا گیا تها۔ سابق افغان بادشاه امان الله خان نے اپنے وزیر خارجه محمود ترزی، جوکه اولین ترک صدر کمال پاشا اتا ترک سے خاصے قریب تهے، کے مشوروں پر افغانستان میں جدیدیت کو پروان چڑهانے کی کوشش کی تهی۔ امان الله کے دور میں مخلوط تعلیم کے نظام کے قیام جیسے متعدد "ماڈرن" اقدامات اٹهائے گئے تهے، جو بہت زیاده مقبول نہ ہو سکے۔

Afghanistan - Frauenrechte
افغان صدر محمد اشرف غنی کی اہلیه خاتون اول رولا غنی وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ مل کر قومی ایکشن پلان کے آغاز کا اعلان کر رہی ہیںتصویر: DW/Shadi Khan Saif

صدر غنی کے آبائی صوبے لوگر سے تعلق رکهنے والے سینیئر افغان صحافی عاشق الله یعقوب کے خیال میں افغان صدر کو پهونک پهونک کر قدم اٹهانا ہوں گے:’’یه البته مت بهولیے کہ شاه امان الله خان کے دور اور موجود دور میں کافی فرق ہے، صدر غنی کی انتخابی کامیابی میں خواتین، بالخصوص دیہی علاقوں کی خواتین ووٹرز نے کلیدی کردار نبهایا ہے اور وه ذاتی طور پر بهی اس عقیدے پر قائم ہیں که خواتین کی شمولیت کے بغیر معاشرے میں ترقی ممکن نہیں۔‘‘

صدر غنی افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق موضوعات پر اپنی تقاریر کے دوران اکثر اپنی نانی کا ذکر کرتے ہیں، جو ان کے بقول ایک تعلیم یافته اور با اختیار خاتون تهیں۔ افغان صدر کے بقول اس دور میں بهی ان کی نانی ذاتی جائیداد کی مالک تهیں، جس باعث وه معاشی طور پر مستحکم تهیں اور یہی نکته خواتین کی ترقی کے لیے اہم ترین ہے۔

رواں برس مارچ کے مہینے میں دارالحکومت کابل میں ایک خاتون کو مبینه طور پر قرآن کی بے حرمتی کرنے پر ایک مشتعل ہجوم نے انتہائی بے دردی سے مار ڈالا تها۔ اس واقعے کے بعد سے ملک میں خواتین پہلے سے کہیں زیاده توانائی اور جذبے کے ساته اپنے حقوق کا مطالبه کر رہی ہیں۔

Afghanistan - Frauenrechte
افغان خواتین کی مرکزی تنظیم ’شبکه زنان افغان‘ کی سربراه حسینه صافیتصویر: DW/Shadi Khan Saif

افغان علما کونسل کے ایک رکن نے واضح الفاظ میں صدر غنی کو متنبه کیا تها که وه "خواتین کو لگام دیں"۔ عنایت الله بلیغ نے اپنے ایک بیان میں کہا تها:’’صدر غنی انہیں (خواتین سماجی کارکنوں) کو لگام دیں ورنه ہم جانتے هیں که انہیں کیسے روکنا ہے۔‘‘

افغان خواتین کی مرکزی تنظیم ’شبکه زنان افغان‘ کا دعویٰ ہے که خواتین کو جو مقام اس وقت حاصل ہے، وه ایک طویل، صبر آزما اور کٹهن جستجو کا ثمر ہے۔ اس تنظیم کی سربراه حسینه صافی کے بقول گرچه گزشته برسوں کے دوران خواتین کی صحت اور تعلیم کے ضمن میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے تاہم معمولی حکومتی غفلت بھی ان تمام کامیابیوں پر پانی پهیر سکتی ہے:’’ہماری جستجو ختم نہیں ہوئی، ہم افغان خواتین کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید