1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: پروان کا ضلع شنواری طالبان کے ہدف پر

13 اگست 2012

پروان دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع ہے اور یہاں افغانستان میں متعین امریکی فوج کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ’بگرام ایئر بیس‘ بھی قائم ہے۔ تاہم اس کا ایک ضلع ’شنواری‘ ایسا ہے، جہاں قریب ہر روز ہی طالبان حملہ آور ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15oZG
تصویر: AP

پروان کا ضلع شنواری سرسبز پہاڑوں میں گِھرا ہوا ایک وادی نما علاقہ ہے۔ یہاں کے ایک پولیس عہدیدار نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ وہ ہر شب ہی طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ طالبان نے شنواری کے علاقے میں ایک متوازی نظام حکومت قائم کر رکھا ہے، جس کے تحت لوگوں کو سزائیں دینے کے علاوہ تدریسی عمل بھی اپنے ہی انداز میں سر انجام دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پروان کے حوالے سے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں مبینہ طور پر بدکاری کے الزام میں ایک خاتون کو عسکریت پسندوں نے سرعام گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔ وزارت امور خواتین کی ترجمان کے مطابق خاتون کی عوامی سزائے موت کا یہ پہلا نہیں گیارہواں واقعہ تھا۔

پروان کے ایک مقامی تاجر عبد الخواص نے بتایا کہ علاقے میں گولیوں اور راکٹوں کی بارش ہوتی ہے۔ ’’ ہم شب و روز خوف میں بسر کر رہے ہیں، طالبان اکثر یہاں آکر سرکاری عمارات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔‘‘ ضلعی حکومت کے دفتر کے اردگرد خاردار تاریں، اینٹیں اور ریت سے بھرے تھیلے رکھے گئے ہیں۔ مقامی پولیس ذرائع کے مطابق متعدد حملوں کے باعث عمارت کے شیشے ایک ماہ میں بیس سے زائد مرتبہ تبدیل کیے جاچکے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق ان کا کنٹرول ضلعی صدر مقام کے اردگرد کے کچھ دیہات تک محدود ہے جبکہ دیگر متعدد دیہات پر طالبان کا غلبہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عوام کی اکثریت اپنے مسائل کے حل کے لیے حکومت سے رجوع کرنے سے گھبراتے ہیں اور طالبان کے پاس چلے جاتے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال میں وہ محض 18 عسکریت پسندوں کو گرفتار کرسکے ہیں۔

صوبائی گورنر کی ترجمان روشانہ خالد نے بتایا کہ بدقسمتی سے مقامی آبادی میں کچھ لوگ طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ ’’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر لوگ گزشتہ چالیس برس سے ناخواندہ رہے ہیں اور طالبان کی ان باتوں میں آجاتے ہیں کہ ’اسلام خطرے میں ہے‘ اور ان کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول مقامی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ طالبان کا صفایا کیا جاسکے۔

افغانستان کی پولیس فورس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد جوان اور فوج میں قریب دو لاکھ سپاہی سلامتی کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

پروان کے شنواری ضلعے میں محض تیس پولیس اہلکار فائز ہیں جبکہ یہاں متعین فوج بڑی شاہراوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔ یہاں کے ایک پولیس عہدیدار نے بتایا کہ وہ محض آٹھ ہزار افغانی ماہانہ پر کام کرتا ہے اور کئی کئی ماہ تک اسے رخصت بھی نہیں ملتی۔ ’’ میں بہت تھک چکا ہو، اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ہم بھی طالبان کے ساتھ جا ملنے کا سوچنے لگیں گے۔‘‘

(sks/ aba (dpa