1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کے مندوب یمنی دارالحکومت میں، سعودی بمباری جاری

امجد علی30 مئی 2015

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے یمن عود شیخ احمد کو یمنی دارالحکومت صنعاء پہنچے چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ سعودی قیادت میں برسرِپیکار اتحادی افواج کی فضائیہ نے کل رات صنعاء میں باغیوں کے ٹھکانوں پر بم برسانا شروع کر دیے۔

https://p.dw.com/p/1FZSp
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ عود شیخ احمد جنیوا کے تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات پر بات کرنے کے لیے یمنی دارالحکومت گئے ہیں۔

یہ تازہ بمباری ایک ایسے وقت کی گئی ہے، جب ہمسایہ ملک عمان شیعہ حوثی باغیوں اور ایران سے گئے ہوئے نمائندوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ عمان ایک طرف ایران کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ خلیجی تعاون کونسل (GCC) میں بھی شامل ہے، جس کا ایک رکن سعودی عرب بھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عمان میں جاری بات چیت میں ’یمن کے خلاف جارحیت‘ پر تبادلہٴ خیال کیا جا رہا ہے۔

رواں مہینے پانچ روز کے فائر بندی کے ایک وقفے کو چھوڑ کر سعودی عرب اور اُس کے اتحادی چھبیس مارچ سے یمن میں ایران نواز شیعہ حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو بمباری کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حملوں کا نشانہ بننے والے تازہ اہداف میں معزول صدر علی عبداللہ صالح کے آبائی قصبے میں واقع اُن کا ایک مکان بھی شامل ہے۔

اسی طرح یہ تازہ بمباری صالح کے اُس انٹرویو کے بھی چند گھنٹے بعد کی گئی ہے، جو جمعے کو دیر گئے نشر ہوا اور جس میں اُنہوں نے حوثی باغیوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے کی گئی ’کئی ملین ڈالر‘ کی پیشکش کو رَد کر دیا۔

تین عشروں تک برسرِ اقتدار رہنے والے صالح کو 2012ء کے اوائل میں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اب صالح کی فوجیں اُن حوثی باغیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں، جنہوں نے اس سے پہلے دارالحکومت صنعاء پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

Der UN-Sondergesandte für Jemen Ismail Ould Scheich Ahmed
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے یمن عود شیخ احمدتصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais

صبا نیوز ڈاٹ نیٹ نے عود شیخ احمد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’تمام یمنی فریقوں کو مذاکرات کی میز پر واپس آنا چاہیے‘۔ اب تک دو ہزار کے قریب ہلاکتوں کا باعث بننے والے یمنی تنازعے کے موضوع پر جمعرات اٹھائیس مئی کو جنیوا میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا تاہم پھر یہ کانفرنس ملتوی کر دی گئی۔

اپنے انٹرویو میں سابق معزول صدر علی عبداللہ صالح نے سوئٹزرلینڈ میں یمنی فریقوں کے درمیان آپس میں بات چیت کے ساتھ ساتھ یمن اور سعودی عرب کے مابین بات چیت کی بھی حمایت کی۔ ساتھ ہی اُنہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ سعودی عرب جنگ زدہ یمن میں فتنے کے بیج بو رہا ہے۔ علی عبداللہ صالح نے، جو خود بھی حوثیوں کی ایران نواز شیعہ شاخ زیدی سے تعلق رکھتے ہیں، کہا کہ ’جلد یا بدیر ہم سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کریں گے‘۔ صالح کے بقول سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی بات چیت میں ’اقتدار کی منتقلی، ایک نئی اتھارٹی کے انتخاب اور انتخابات کی جانب واپسی پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے اور سعودی جارحیت کی مذمت کی جانی چاہیے‘۔ صالح نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ اُن کے کوئی براہِ راست روابط نہیں ہیں لیکن اُنہوں نے یہ اصرار بھی کیا کہ ایران یمن کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ نے بھی گزشتہ منگل کو یمنی تنازعے کے خاتمے کے سلسلے میں عمان میں مذاکرات کیے تھے۔ اُدھر صالح نے کہا ہے کہ سلطنت عمان میں امریکا اور ایران کے مابین بھی بات چیت چل رہی ہے، جس میں ریاض اور تہران کے درمیان ثالثی پر بات کی جا رہی ہے۔ عمان چھ رکنی خلیجی تعاون کونسل کا واحد رکن ملک ہے، جو اپنے ہمسایہ ملک یمن کے خلاف فضائی حملے کرنے والے عرب اتحاد کا حصہ نہیں بنا ہے۔