1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت کے امکانات

30 ستمبر 2009

مصر نے فلسطین کے متحارب گروپوں یعنی الفتح اور انتہاپسند حماس کو اگلے ماہ ایک بار پھر مدعُو کیا ہے تا کہ دونوں گروپوں کے درمیان جو مختلف نکات پر مفاہمت پیدا ہو چکی ہے، اُسے ایک سمجھوتے کی شکل دی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/Ju3m
انتہاپسند تنظیم حماس کے لیڈر خالد مشال اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، شاہ عبداُللہ کے ساتھ سابقہ مذاکرات کے دوران: فائل فوٹوتصویر: AP

ماہرین کا خیال ہے کہ حتمی سمجھوتے تک یہ سب ناقابلِ یقین ہے کیونکہ اِس سے قبل بھی دونوں فریق مفاہمت کے قریب پہنچ کر دور ہو چکے ہیں۔ اگر معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو اُس پر عمل درآمد بھی آسان نہیں ہو گا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یونٹی حکومت بن جانے کے بعد وہ کتنے عرصے کے لئے ہو گی، یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے، کیونکہ دونوں گروپ رفتہ رفتہ تحمل و برداشت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ انتہاپسند حماس کے مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کی وجہ اگلے سال کے صدارتی اور پارلیمانی الیکشن کا عمل ہے اور حماس کو احساس ہے کہ محمود عباس، حماس کو منفی کرتے ہوئے اِن الیکشن کا انعقاد کروا دیں گے۔

دوسری جانب بعض ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ الفتح کے ساتھ سمجھوتے سے غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی میں نرمی پیدا ہوگی اور وہاں انسانی المیے کی صورت حال بہتر ہو پائے گی۔

Gespräche zwischen Fatah und Hamas in Mekka
محمود عباس اور خالد مشال دورانِ نماز ایک ساتھتصویر: AP

واضح رہے کہ جنوری سن دو ہزار دس کا انتخابی عمل بھی فلسطینیوں کے سر پر آن پہنچا ہے۔ اب تک جن معاملات پر کوئی متفقہ لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا جا سکا ہے اُن میں اگلے سال کے انتخابات کے لئے تاریخوں کا تعین، مشترکہ سیکیورٹی فورس کا قیام، مغربی کنارے اور یہ کہ غزہ میں حکومت سازی کس طرح ہو گی۔

انتہاپسند تنظیم حماس نے تجویز کیا ہے کہ ایک کمیٹی ہونی چاہیے جو مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان رابطے کا کام کرے۔ اِس کو الفتح کی جانب سے یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ یہ دونوں فریقوں میں پیدا شدہ خلیج کو وسعت دینے کا عمل تیز تو کر سکتی ہے لیکن اختلافات کو کم کرنے کا باعث نہیں بنے گی۔ غزہ کے لئے الفتح کی تجویز ہے کہ حماس کی جگہ ایک عبوری حکومت لائی جائے جو انتخابات کے انعقاد کے لئے فضا سازگار کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں تعمیر نو کے عمل کو بھی آگے بڑھائے۔

ایسے امکانات بھی ہیں کہ فلسطینی علاقوں میں مصری سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی جائے تا کہ وہ صورت حال پر نگاہ رکھیں۔ اِن اہلکاروں کے لئے اہم ترین کام یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ وہ الفتح اور غزہ کے کا رکنوں پر مشتمل فلسطینی پولیس فورس کے قیام اور تربیت کا آغاز کریں۔ اگر حتمی معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر رافع کراسنگ پوائنٹ کو پوری طرح فعال کرنے کا پلان بھی شامل ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدر معاہدہ ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں امکانی طور پر پچیس اکتوبر کو اگلے الیکشن کے انعقاد کا حکم جاری کر سکتے ہیں۔

رپورٹ : عابد حسین

ادارت : عاطف توقیر