1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا:اسلام اور پیغمبر اسلام کے اصل پیغامات کی تشہیر

3 ستمبر 2015

نیو یارک میں قائم شمالی امریکا کے اسلامی حلقے کی جانب سے ملک بھر میں درجنوں ایسے بل بورڈز نصب کرنے کی ایک انوکھی مہم شروع کی گئی ہے جس پر پیغمبر اسلام اور مذہب اسلام کے حقیقی پیغامات درج ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GQdV
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Savoia

امریکا کے مختلف شہروں میں نصب کیے جانے والے ان بل بورڈز پر مسلمانوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل مذہبی پیغامات درج ہیں جن پر مثال کے طور پر لکھا گیا ہے،’’ پیغمبر اسلام کا شعار امن، سماجی انصاف، خواتین کے حقوق کا تحفظ تھا اور انہوں نے ہمیشہ محبت، امن اور بھائی چارے کی تعلیمات عام کیں اور وہ تشدد اور نفرت کے خاتمے کے لیے آئے تھے‘‘۔ اس سال موسم گرما میں جگہ جگہ نصب کیے جانے والے ان بل بورڈز پر ایک ویب سائیٹ اور ایک ٹیلی فون نمبر بھی درج ہے جس پر کال کر کے مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

امریکی شہر بوسٹن، نیو یارک، فینِکس، سین ڈیاگو، الپاسو اور آسٹن کے علاوہ، ریاست ٹیکساس، ٹینیسی، کلیو لینڈ، لاس ویگاس، ملواؤ کینارتھ برگن، نیو جرسی، پورٹ لینڈ، آورگون، ہیرسبرگ، پنسلوینیا، ڈینور، کلاگری اور برٹش کولمبیا شامل ہیں۔

اس مہم کو شروع کرنے والے مسلمانوں کے گروپ کے صدر نعیم بیگ کے مطابق یہ مہم رواں برس فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایک طنز نگار جریدے شارلی ایبدو اور پیرس ہی میں قائم یہودیوں کے ایک سُپر مارکیٹ پر مسلم عسکریت پسندوں کے حملوں کے تناظر میں شروع کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پیرس کے ان حملوں میں 20 افراد، ہلاک ہوئے تھے جن میں تین حملہ آور بھی شامل تھے۔

boston polizisten nacht
2013 ء میں بوسٹن میں ہونے والا حملہتصویر: reuters

نعیم بیگ کا کہنا ہے کہ پیرس میں ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں میں ملوث افراد مذہب اسلام کی روح اور اس کے اصل معنی اور مفہوم کو بالکل غلط سمجھے ہیں۔ نعیم کے بقول امریکا کی مسلم برادری مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کے اصل پیغام کو پھیلانا اور ان کے بارے میں دیے جانے والے غلط تاثرات کے ازالے کی کوشش کر رہی ہے۔

بوسٹن، جہاں 2013 ء میں منعقد ہونے والی ایک میراتھن کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے پس منظر میں پیدا ہونے والا یہ سوال کہ کیا مسلمانوں کی اس نئی مہم کو شدید مخالفت یا مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے؟ نعیم بیگ کا کہنا ہے،’’ یہی تو وجہ ہے اس مہم کو شروع کرنے کی۔ انتہا پسند ہر معاشرے میں ہوتے ہیں‘‘۔ نعیم بیگ مزید کہتے ہیں، ’’ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے اُس وقت سخت تکلیف ہوتی ہے جب کوئی میرے عقیدے، میرے مذہب، میرے پیغمبر کی تعلیمات کو بُرا کہتا ہے‘‘۔

Anhörung zur angeblichen Radikalisierung der Muslime in den USA
کچھ عرصے سے امریکا کی مسلم آبادی مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کو دور کرنے کے لیے زیادہ فعال ہو گئی ہےتصویر: AP

نعیم بیگ کے خیال میں جو لوگ تشدد اور انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ زندگی میں ناکام اور بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں۔ نہ تو انہیں اپنے مستقبل کے سمت کا پتا ہوتا ہے نہ ہی یہ اپنی زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن کلچرل سینٹر کے ایبگزیکٹیو ڈائرکٹر یوسفی ولی اس مہم کے بارے میں کہتے ہیں،’’ ہمارا عمل الفاظ سے زیادہ زور دار ہے‘‘۔