1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکا افغانستان پر قبضہ ختم کرے‘، اخوندزادہ کا پہلا پیغام

مقبول ملک2 جولائی 2016

افغان طالبان کے نئے رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ نے طالبان کا ’امیر‘ بننے کے بعد سے اپنے پہلے پیغام میں مطالبہ کیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ’طاقت کا بے فائدہ استعمال‘ ترک کرتے ہوئے افغانستان کا ’قبضہ‘ ختم کر دیں۔

https://p.dw.com/p/1JHuZ
Afghanistan Mullah Haibatullah Achundsada
ہیبت اللہ اخوندزادہتصویر: picture-alliance/dpa/Afghan Islamic Press via AP

ملکی دارالحکومت کابل سے ہفتہ دو جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس سال مئی میں اپنے پیش رو ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ہیبت اللہ اخوندزادہ نے یہ بات اپنے ایک ایسے پیغام میں کہی ہے، جو عیدالفطر کی مناسبت سے لیکن اس اسلامی تہوار سے چند روز قبل ہفتہ دو جولائی کو جاری کیا گیا۔

ماضی میں بھی افغان طالبان کے رہنماؤں کی طرف سے رمضان کے اسلامی مہینے کے آخری دنوں میں ایسے پیغامات جاری کیے جاتے رہے ہیں۔

اپنے اس اولین پیغام میں اخوندزادہ نے کہا، ’’امریکی مداخلت کاروں اور ان کے اتحادیوں کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ افغانستان کے مسلم عوام نہ تمہاری فوجی طاقت سے خوف زدہ ہیں اور نہ کسی عسکری حکمت عملی سے۔ وہ اس بات کو اپنی زندگیوں کا مقصد بنائے ہوئے ہیں کہ تمہارے خلاف لڑتے ہوئے موت کو گلے لگا لیں۔‘‘

ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کابل حکومت کے غیر ملکی اتحادیوں کے طور پر امریکا اور اس کے عسکری حلیف ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا، ’’اپنی (فوجی) طاقت کا بے فائدہ استعمال کرنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کر لو اور افغانستان پر قبضہ ختم کر دو۔‘‘

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ افغان طالبان کے چند ماہ قبل منتخب کیے جانے والے نئے سربراہ نے اپنے پیغام میں امریکا کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا، ’’تمہیں کسی گروپ یا دھڑے کا سامنا نہیں بلکہ تمہارے مقابل ایک قوم ہے اور فتح تمہارے حصے میں نہیں آئے گی۔‘‘

Afghanistan Taliban-Führer Akhtar Mohammed Mansur durch Drohne getötet
ہیبت اللہ اخوندزادہ کو مئی میں ملا اختر منصور کی بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد افغان طالبان کا نیا سربراہ چنا گیا تھاتصویر: Reuters

ہیبت اللہ اخوندزادہ کو افغان طالبان نے دو ماہ قبل مئی میں اس وقت اپنا نیا سربراہ منتخب کیا تھا، جب طالبان کے گزشتہ سربراہ اور اخوندزادہ کے پیش رو ملا اختر منصور کو پاکستانی صوبہ بلوچستان میں ایک گاڑی میں سفر کے دوران امریکا نے ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔

اخوندزادہ نے اپنا یہ پہلا بیان ایسے وقت پر جاری کیا ہے، جب ابھی دو روز قبل ہی طالبان عسکریت پسندوں نے ملکی دارالحکومت میں دو طاقتور بم دھماکے کر کے کم از کم 32 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور 78 دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ یہ حملہ ماضی قریب میں کابل میں سکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے طالبان کے سب سے ہلاکت خیز حملوں میں سے ایک تھا۔

ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے بیان میں افغان حکومت کے بارے میں کہا، ’’غیر ملکی فوجی مداخلت کاروں کے حامیوں کو گزشتہ 15 برسوں میں یہ علم تو ہو ہی چکا ہو گا کہ انہیں امریکی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی فوجی مداخلت کے ان حامیوں کا کام بھی ویسا ہی ہے، جیسا ماضی میں افغانستان میں برطانوی اور سوویت فوجی مداخلت کے حامیوں کا رہا ہے۔‘‘

ہیبت اللہ اخوندزادہ کے اس پہلے بیان پر فوری طور پر امریکا یا افغان حکومت کا کوئی ردعمل تاحال سامنے نہیں آیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں