1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں بات چیت

2 جولائی 2022

امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا کہ امریکی حکام نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ دوحہ میں بات چیت کی ہے۔ دونوں فریقین کے مابین مارچ میں آخری ملاقات کے بعد قطری دارالحکومت میں یہ پہلا براہ راست رابطہ تھا۔

https://p.dw.com/p/4DYUG
Afghanistan | Taliban Versammlung in Kabul
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

ذرائع کے مطابق طالبان رہنما امریکہ کی جانب سے منجمد کیے گئے افغانستان کے اثاثوں اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بحال کرنے کے راستے تلاش کررہے ہیں جبکہ گزشتہ ماہ افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے باوجود امریکہ طالبان سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ یہ رقم افغان عوام کی مدد کے لیے ہی خرچ کی جائے گی۔

امریکی محکمہ خارجہ نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا کہ دوحہ میں بدھ اور جمعرات کو ہونے والی بات چیت کے دوران امریکہ نے زلزلے سے ہونے والی تباہی کے بعد افغان عوام کے لیے پانچ کروڑ 50لاکھ ڈالر کی نئی امداد کا اعادہ کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا، ''دونوں فریقین نے افغان عوام کی مدد کے لیے افغانستان کے سنٹرل بینک کے ساڑھے تین ارب ڈالر کے غیر ملکی اثاثوں کو محفوظ کرنے کے لیے امریکی اقدامات پر تفصیل سے بات چیت کی۔ وائٹ ہاوس نے گزشتہ ہفتے اس رقم کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ اس مسئلے کو ''فوری طور پر‘‘ حل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ مشرقی افغانستان میں 5.9 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 1000 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں دیگر بے گھر ہوگئے تھے۔ طالبان کو متاثرین کی مدد کے لیے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ اس ملاقات میں ''افغانستان میں حالیہ زلزلے سے ہونے والے جانی نقصان اور دیگر مصائب پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔‘‘ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ میٹنگ میں امریکی وفد کی قیادت کررہے ہیں۔

گزشتہ ماہ افغانستان میں زلزلہ میں 1000 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں دیگر بے گھر ہوگئے تھے
گزشتہ ماہ افغانستان میں زلزلہ میں 1000 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں دیگر بے گھر ہوگئے تھےتصویر: AP Photo/picture alliance

امریکہ کے خدشات اور مطالبات

امداد کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے ''انسانی امداد کی فراہمی میں طالبان کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور خدمات کی فراہمی میں شفافیت کے حوالے سے خدشات کا اظہار بھی کیا۔‘‘

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکی نمائندوں نے طالبان رہنماؤں پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی دباؤ ڈالا۔ مارچ میں معطل ہوجانے والے دوحہ مذاکرات میں بھی یہ ایک متنازع موضوع تھا، جب طالبان نے افغانستان میں سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کے جانے پر پابندی لگادی تھی۔

بیان میں کہا گیا ہے، ''امریکہ افغان عوام کے ان مطالبات کی حمایت کرتا ہے کہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جائے اور خواتین کو ملازمت کرنے، ملک کی اقتصادی ترقی میں حصہ لینے اور آزادانہ طورپر نقل و حرکت نیزانہیں اظہار رائے کی آزادی دی جائے۔‘‘

طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ
طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ تصویر: picture-alliance/dpa/Afghan Islamic Press via AP

’ہم جانتے ہیں ملک کیسے چلانا ہے‘

خیال رہے کہ 20 برس تک جنگ کے بعد گزشتہ سال امریکی فوج کے انخلاء کے بعد طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ تاہم اس کے بعد امریکہ نے افغانستان کے سات ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو منجمد کردیا تھا جب کہ بین الاقوامی برادری نے براہ راست دی جانے والی اربوں ڈالر کی وہ امداد روک دی تھی، جس پر ملک کی تقریباً چار کروڑ آبادی کا انحصار تھا۔

ان پابندیوں کی وجہ سے افغانستان سنگین اقتصادی صورت حال سے دوچار ہوگیا، حالانکہ بعد میں تھوڑی امداد بحال کردی گئی۔

امریکہ اب بھی طالبان کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اس کے اہم خدشات کو دور کرنے پرمنحصر ہے۔

اس دوران طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ جمعے کے روز پہلی مرتبہ عوامی طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں عالمی برادری سے کہا، ''ہمیں یہ نہ بتائیں کہ افغانستان کو کیسے چلانا ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ''غیر مسلم قومیں ہمیشہ ایک خالص اسلامی ریاست کی مخالفت کرتی رہیں گی، لہٰذا وفاداروں کو اپنی مطلوبہ چیز حاصل کرنے کے لیے مشکلات برداشت کرنا پڑیں گی۔‘‘

ج ا/ ب ج (اے ایف پی)

زلزلہ متاثرین کے لیے پاکستانی امداد افغانستان پہنچ گئی

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید