1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی مظاہرے، کئی ریاستوں میں کرفیو نافذ

2 جون 2020

امریکی سیاہ فام شہری جارج فلوئيڈ کے پوليس کے ہاتھوں ماورآۓ عدالت قتل کے بعد امريکا بھر ميں احتجاجی مظاہرے جاری ہيں۔ يہ احتجاج اب عالمی سطح پر بھی ہو رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/3d8Bj
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/O. Messinger

اس وقت امريکا کی چاليس رياستوں ميں کرفيو نافذ کر ديا گيا ہے۔ مظاہروں کے دوران کئی ويڈيوز منظر عام پر آئيں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے احتجاجيوں کے ساتھ ساتھ وہاں موجود صحافيوں پربھی تشدد کرتے نظرآ رہے ہيں ۔ ان ويڈيوز ميں صحافی بار بار کہتے سنائی دے رہے ہيں کہ ہم صحافی ہيں اور اپنا کام کر رہے ہيں مگر پوليس انکو ربڑ بلٹس مارنے، مرچ کے اسپرے کرنے اور دھکے دينے سے باز نہيں آ رہی ہے۔

فوٹو جرنلسٹ لنڈا ٹراڈو پر مظاہرے کی کوريج کے دوران پوليس نے ان پرربڑ بلٹس سے فائر کيا جس سے وہ اپنی بائيں آنکھ کھو بيٹھيں۔ کئی صحافيوں پرپوليس کی طرف سے مرچ کے اسپرے  اور آنسو گيس کا استعمال بھی کيا گيا۔ اس ضمن ميں چند پوليس والوں کی گرفتاریاں بھی عمل ميں آئيں ہيں جبکہ اب تک چار ہزار مظاہرين گرفتار ہو چکے ہيں۔

  مينيسوٹا ميں ڈی ڈبليو کے نمائندے، اسٹيفان سمنزپر بھی کوريج کے دوران پوليس کی طرف سے ربڑ بلٹس برسائی گئيں اور انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔ اسٹيفان کے بار بار بتانے کے باوجود کہ وہ ايک صحافی ہيں اور اپنا کام کررہے ہيں، پوليس انہيں ہراساں کرتی رہی۔ اس واقعہ کے بعد ڈی ڈبليو سے خصوصی بات چيت کرتے ہوے انہوں نے بتايا کہ "ميں نے کئی مظاہروں کی کوريج کی ہے مگر اس وقت ہميں خوف ،غم وغصہ ميں ڈوبے ہوئے مظاہرين سے نہيں، بلکہ وہاں موجود پوليس اہلکاروں سے تھا۔ انکا رويہ ٹھيک نہيں تھا وہ نہيں چاہتے تھے کہ انکی ویڈيو بنےاوران مظاہروں کی رپورٹ ہو ، وہ اپنی طاقت دکھانا چاہتے تھے جو انہوں نے ہميں ہراساں کر کے دکھائی۔"

پير کے روز واشنگٹن ڈی سی ميں مظاہرين تمام دن وائيٹ ہاوس کے باہر احتجاج کرتے رہے۔ يہ مظاہرے تمام دن پر امن رہے۔ 

 پاکستانی صحافی جہانزيب علی نے وائيٹ ہاوس کے مظاہرے کی کوريج کے دوران ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوۓ بتايا کہ جيسے ہی صدر ٹرمپ کی گورنرز کے ساتھ کال ليک ہوئی وہاں موجود احتجاجی جذباتی ہو کر نعرے لگانے لگے۔ اس کال ميں صدر ٹرمپ گورنرز سے مظاہرين کے ساتھ سخت رويہ اختيار کرنے اور انکو دس سال کی سزا دينے پر زور ديتے سنائی دے رہے ہيں۔ اس خبر کےبعد مظاہرين کا کہنا تھا کہ اگر انہيں بيس سال کی سزا بھی دی جاۓ تو بھی وہ احتجاج کرنے سے پيچھے نہيں ہٹيں گے۔

واشنگٹن ڈی سی ميں يہ پر امن مظاہرہ شام کو اس وقت بدامنی کا شکار ہوا جب وائٹ ہاوس کی ملٹری پوليس کی ايک بھاری نفری نے مظاہرين کو ہٹانے کے ليے ان کو دھکے دينے شروع کر ديے اور پھر ان کو منتشر کرنے کےليے ان پر آنسو گيس برسائی گئی۔ یہ سب اس لیے کيا گيا کيونکے صدر ٹرمپ وائٹ ہاوس سے ملحق چرچ کے سامنے تصوير کھينچوانہ چاہتے تھے۔ اس وقت  یہ بات انتہائی متنازعہ بنی ہوئی ہے۔   

ان مظاہروں ميں ہر رنگ ونسل کے لوگ شريک ہيں۔ امريکی عوام نسل پرستی کے خلاف لاکھوں کی تعداد ميں احتجاج کر رہی ہيں۔ کئی ریاستوں ميں رات گئے کرفيو کے باوجود مظاہرين سڑکوں پر جمع رہتے ہيں اور پوليس کی بربريت کے خلاف نعرے لگاتے ہيں۔   

افريقی امريکی ايکٹوسٹ جينيٹہ کولئيرنے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوۓ کہا کہ، "ہماری قوم يہ مظالم صديوں سے برداشت کر رہی ہے۔ اس بار بھی انصاف ويسے نہيں ہو گا جيسے ہونا چاہیے۔ کچھ روز یہ مظاہرے چليں گے پھر وہی صورتحال ہو گی۔ جب تک گورنرز، مئيرز اور وائٹ ہاوس مل کر تبديلی نہيں لانا چاہيں گے، تبديلی نہيں آۓ گی اور حالات بدستور ايسے ہی رہيں گے۔"

اس وقت امريکا کی عوام انصاف مانگنےاور صدر ٹرمپ کے قائدانہ کردارپر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ يہ سوال بھی کر رہی ہے کہ کيا امريکا کی پولیس کو ٹریننگ کی ازسرنو ضرورت ہے؟