1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسان کے ہاتھوں خلائی تسخیر کو ساٹھ برس ہو گئے

مقبول ملک اے پی
4 اکتوبر 2017

آج سے ٹھیک ساٹھ برس قبل جب سپُٹنِک کو خلاء میں بھیجا گیا تھا، تو ایک نیا خلائی دور شروع ہو گیا تھا۔ سرد جنگ کے دور میں یہ انقلابی پیش رفت سوویت یونین کی بہت بڑی کامیابی بن گئی تھی، جس پر پوری دنیا ششدر رہ گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/2lCKd
سوویت یونین کی طرف سے ساٹھ برس قبل خلاء میں بھیجا گیا پہلا مصنوعی سیارہ سپُٹنِک ونتصویر: Imago/ZUMA Press

سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے دارالحکومت ماسکو سے بدھ چار اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ٹھیک چھ عشرے قبل جب سوویت یونین نے Sputnik کو خلا میں بھیجا تھا، تو یہ طے ہو گیا تھا کہ تب سوویت یونین نے عسکری سطح پر اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکا پر بہت متاثر کن برتری حاصل کر لی تھی۔

Laika erster Hund im Weltall
سپُٹنِک ٹو میں پہلی بار ایک مسافر بھی تھا (تصویر)، جو لائیکا نامی کتا تھاتصویر: picture-alliance/Heritage Images

بھارت نے اکتیس مصنوعی سیارے خلا میں روانہ کر دیے

ناسا نے زمین جیسے دس نئے سیارے دریافت کر لیے

خلائی راکٹ کے ملبے سے زمین پر ایک شخص ہلاک

تب ماسکو میں سوویت رہنماؤں نے اس پہلے مصنوعی سیارے کی تیاری اور اس کے اولین خلائی سفر کی جملہ تفصیلات انتہائی خفیہ رکھی تھیں، جو عشروں بعد منظر عام پر آ سکی تھیں۔

سپُٹنِک سوویت یونین کی طرف سے خلاء میں بھیجا گیا دنیا کا پہلا خلائی جہاز تھا اور اس میں کوئی خلاباز سوار نہیں تھا۔

سپُٹنِک کو 1957ء میں چار اکتوبر کے روز خلاء میں بھیجا گیا تھا اور اس منصوبے پر کام کرنے والے سوویت سائنسدانوں کی ٹیم کی رہنما سیرگئی کورولیوف تھے۔

Nikita Sergejewitsch Chruschtschow 1960
سپُٹنِک کے ڈیزائنر کے لیے نوبل انعام کی پیشکش رد کرنے والے نیکیتا خروشیفتصویر: Getty Images

خلائی ملبہ، اسپیس پروگراموں کے لیے شدید خطرہ

عام خلائی سیاحوں کا چاند کے گرد پہلا چکر اگلے سال

خلا سے ملبہ اکھٹا کرنے کی جاپانی کوشش

سوویت یونین کا یہ پہلا مصنوعی خلائی سیارہ، جو ایک خلائی جہاز تھا، صرف چند ماہ میں تیار کیا گیا تھا۔ روسی زبان میں اس کے نام کا مطلب تھا، ’سادہ ترین سیٹلائٹ‘ اور اسے مختصراﹰ پی ایس ون کا نام دیا گیا تھا۔

تب کورولیوف نے کہا تھا، ’’دنیا ایک دائرے کی شکل کی ہے۔ اس لیے یہ پہلا مصنوعی سیارہ بھی دائرے کی شکل کا ہونا چاہیے۔‘‘

سپُٹنِک کا وزن 84 کلوگرام سے کچھ ہی کم تھا، اس کے چار اینٹینے تھے اور اپنی جسامت میں وہ ایک باسکٹ بال سے کچھ ہی بڑا تھا۔ اس خلائی جہاز کے اولین سفر کی پہلی خبر بہت ہی مختصر تھی، جسے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جریدے ’پراودا‘ کے اندرونی صفحات میں سے ایک پر شائع کیا گیا تھا۔

خواتین اب خلا کے شعبے میں

پھر دو روز بعد اسی اخبار نے یہی خبر پہلے صفحے پر بہت بڑی سرخی کے ساتھ شائع کی تھی، جس میں عالمی سطح پر اس کامیابی کے بعد کی جانے والی سوویت یونین کی بے تحاشا تعریف کو بھی کافی جگہ دی گئی تھی۔

سپُٹنِک ون کی لانچنگ کے ساتھ ہی خلائی سفر کے میدان میں سوویت یونین اور امریکا کے مابین ایک دوڑ شروع ہو گئی تھی۔

پھر اسی سال تین نومبر کو سپُٹنِک ٹو کو خلاء میں بھیجا گیا، جس کا وزن 508 کلوگرام تھا اور جس میں پہلی بار ایک مسافر بھی سوار تھا۔

یہ مسافر لائیکا نامی ایک کتا تھا جو لانچنگ کے کچھ ہی دیر بعد سپُٹنِک ٹو کے اندر بہت زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے مر گیا تھا۔

سپُٹنِک کے پہلے خلائی سفر کے بعد نوبل کمیٹی نے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ اس خلائی جہاز کو ڈیزائن کرنے والے انجینیئر کو نوبل انعام دیا جانا چاہیے۔ لیکن اس دور کے سوویت رہنما نیکیتا خروشیف نے یہ پیشکش یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی تھی کہ یہ کامیابی ’سوویت یونین کے تمام شہریوں کی کامیابی‘ تھی۔