1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، بھارت پر تنقید

2 فروری 2011

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2008 ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بھارتی حکام کی طرف سے بے جا تشدد، غیرقانونی گرفتاریوں اور مذہب کے حوالے سے امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/108xc

انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 106 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں دہشت گردانہ واقعات کے ردعمل میں بھارتی سرکاری سکیورٹی اداروں کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے والوں میں پولیس، جیل حکام اور دیگر سکیورٹی ادارے شامل ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق سال 2008 میں جے پور، احمدآباد اور نئی دہلی میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ مئی 2008 سے ستمبر 2008 کے درمیان ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجے میں 150 افراد سے زائد ہلاک جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے تھے۔

Anschlag in Jaipur Indien mindestens 45 Tote
13مئی 2008 کو جے پور میں یکے بعد دیگرے ہونے والے چھ بم دھماکوں میں 45 افراد ہلاک ہوئےتصویر: AP

ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی حکام کو متنبہ کیا ہے کہ ان کے غیر قانونی اقدامات دہشت گردی ختم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، "بھارتی حکام کی طرف سے زبردستی حاصل کیے گئے اور بعض اوقات جعلی اقبال جرم پر انحصار کرنے سے نہ صرف غلط طور پر پھنسائے گئے افراد کو سزا کے خطرات بڑھ جاتے ہیں بلکہ اسی کی بدولت اصل مجرم آزاد پھرتے رہتے ہیں۔"

بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے جاری کردہ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، "طاقت کے غلط استعمال کے حوالے سے الزامات کے باعث بھارت بھر میں مسلم آبادی میں خفگی اور ناراضگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث قانون نافذ کرنے والے ادارے معلومات کے حصول کے ایک ایسے اہم ذریعے سے محروم ہوجاتے ہیں، جو مستقبل کے کسی حملے کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔" جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس طرح کے تشدد کی خبریں دہشت گردوں کے لیے مزید لوگوں کو بھرتی میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

HRW کی رپورٹ کے مطابق کسی بھی حملے کے بعد مشتبہ قرار دے کر بڑی تعداد میں گرفتار کیے جانے والے زیادہ تر افراد مسلمان تھے اور ان پر انڈین مجاہدین سے تعلق کے الزامات عائد کیے گئے۔ انڈین مجاہدین نامی عسکریت پسند تنظیم 2008 میں ہونے والے دھماکوں سمیت اب تک چھ دہشت گردانہ واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

Flash-Galerie Binayak Sen
دسمبر 2010 میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے 60 سالہ ڈاکٹربینایک سین کی گرفتاری کے خلاف احتجاجتصویر: AP

2008 ہی میں مالے گاؤں میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری ہندو انتہاپسندوں پر عائد کی گئی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ اس واقعے کے بعد مشتبہ ہندوؤں کو بھی غیرقانونی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ایک ہندو نوجوان کے مطابق، جسے انتہاپسندی کے شبے میں گرفتار کیا گیا، پولیس نے اس کے منہ میں زبردستی گوشت ڈالا، جو کہ ہندوؤں کے مذہبی عقیدے کے شدید خلاف ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشتبہ افراد سے اقبال جرم کرانے کے لیے نہ صرف ان پر تشدد کیا جاتا ہے بلکہ ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان سے برا سلوک بھی کیا جاتا ہے۔

HRW کی طرف سے یہ رپورٹ گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد، ان کے خاندانوں، وکلاء، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور سلامتی کے ماہرین سے انٹریوز کے بعد مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حصول انصاف کے نظام میں طاقت کا یہ بے جا استعمال ہر سطح پر کیا جاتا ہے۔

رپورٹ: افسراعوان

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں