1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انوکھی پیوند کاری: ناممکن ممکن بن گیا

کشور مصطفیٰ10 جون 2015

بچپن میں بیضہ دانی کے ٹشوز نکلوا کر منجمد کروانے والی ایک خاتون نے ان ٹشوز کی کامیاب پیوند کاری کے بعد ستائیس سال کی عمر میں ایک بچے کو جنم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fean
تصویر: picture alliance/Photoshot/BCI

جمہوریہ کانگو میں پیدا ہونے والی اس خاتون کی عمر اُس وقت پانچ برس تھی، جب اُس میں خون کی ایک نہایت پیچیدہ اور خطرناک بیماری ’ سیکل سیل انیمیا‘ کی تشخیص ہوئی تھی۔ یہ خون کے خُلیے میں ہیموگلوبین کی کمی کے باعث پیدا ہونے والی خون کی ایک مہلک بیماری ہے جو زیادہ تر افریقہ اور بحراوقیانوس کے علاقوں میں پائی جاتی ہے۔

یہ خاتون اس وقت11 برس کی تھی جب اُس کی فیملی جمہوریہ کانگو سے یورپی ملک بلجیئم ہجرت کر گئی تھی۔ تب وہ بہت زیادہ بیمار ہو گئی تھی اور اُس کے ڈاکٹروں نے اُس میں اُس کے بھائی کے بون میرو یا ہڈی کے گودے کی پیوند کاری کی تھی۔ ’ سیکل سیل انیمیا‘ کے کم سن مریضوں یا بچوں میں ڈاکٹرز زیادہ تر کیمو تھراپی کی مدد سے خون کی پیداوار کے عمل کو تیز تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم یہ طریقہ علاج اس لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ضمنی اثرات کے طور پر بچے دانیاں متاثر ہو تی ہیں ۔ کیمو تھراپی انہیں شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ڈاکٹروں نے اس خطرے سے بچتے ہوئے اس خاتون ) جو اُس وقت 13 برس کی تھی( کی اووری یا بیضہ دانی کے کچھ ٹشوز نکال کر انہیں جما دیا۔ اُس لڑکی میں مینسز یا حیض شروع نہیں ہوا تھا تاہم بلوغت کی دیگر علامات ظاہر ہونے لگی تھیں۔

Dr. Isabelle Demeestere Gynäkologin Erasmus Krankenhaus Brüssel
ڈاکٹر ایزابیلے ڈیمیسٹیئرتصویر: Isabelle Demeestere via AP

ایک دہائی بعد یعنی جب وہ 23 برس کی ہوئی تو ڈاکٹروں نے اُس کی اووری کے منجمد حصے کے کچھ ٹشوز نکال کر اُس کے جسم میں باقی ماندہ بیضہ دانی کے ٹشوز کے ساتھ اُن کی پیوند کاری کردی۔ کچھ ہی عرصے میں پیوندکاری کے عمل سے گزری ہوئی بیضہ دانی میں انڈے نشوونما پانے لگے۔ اُس کے کوئی دو سال سے زائد عرصے کے بعد یہ خاتون حاملہ ہو گئی۔ گزشتہ نومبر میں اس نے ایک سات پاؤنڈ کے مکمل صحت مند لڑکے کو جنم دیا۔

برسلز میں قائم ’ایراسمُس‘ ہسپتال اور امراض نسواں اور باروری کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر ایزابیلے ڈیمیسٹیئر کے بقول،’’یہ ایک نہایت خوشی کا لمحہ تھا۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اپنی مریضہ کے لیے ہو رہی ہے کیونکہ وہ بہت خوفزدہ تھی کہ یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ اُس کے پاس اس طریقہ کار کے سوا کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں تھا، ماں بننے کا‘‘۔

ڈیمیسٹیئر اور اُن کے ساتھی ریسرچرز نے اس کیس کی تفصیلات بُدھ کو ’ہیومن ریپروڈکشن‘ نامی ایک آن لائن جریدے میں منظرعام پر لائی ہیں۔

Symbolbild Schwangerschaft Leihmutter
اپنے بیضہ دانی کے منجمد ٹشوز کی پیوند کاری کے بعد حاملہ ہونے کا یہ پہلا کیس ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ماضی میں ایسے کیسس تو سامنے آتے رہے ہیں جن میں ایسی خواتین، جو کسی وجہ سے اووری یا بیضہ دانی کے ٹشوز کو نکلوانے کے بعد ان ٹشوز کی پیوند کاری کے بعد بچوں کو جنم دینے میں کامیاب رہی ہیں تاہم اس سے قبل ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ بچپن میں بیضہ دانی کے ٹشوز نکلوا کر منجمد کروانے والی خاتون میں دوبارہ ان ہی ٹشوز کی پیوند کاری کے بعد حاملہ ہونے اور بچے کو جنم دینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر ایزابیلے ڈیمیسٹیئر اس بارے میں کہتی ہیں،’’ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ کسی مریض کے اندر اُس کے اپنے منجمد شدہ ٹشوز کی پیوند کاری کے کیسے نتائج نکلیں گے یہ تجربہ بالکل نا پُختہ تھا تاہم جب میں نے اس خاتون میں اس تجربے کے بعد یہ دیکھا کہ اُس میں بیض ریزی کا عمل شروع ہو گیا اور اُس کے ہارمونز کا پروفائل نارمل دکھائی دیا تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ خاتون حاملہ ہو جائے گی‘‘۔