1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Sicher Surfen für Schüler

مشائیل ہارٹلیپ / عدنان اسحاق23 دسمبر 2013

جرمن نوجوان روزانہ تین گھنٹے انٹرنیٹ پر صرف کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں سامنے آنے والے خطرات کا انہیں خود ہی خیال رکھنا پڑتا۔ اس حوالے سے نجی معلومات کو محفوظ رکھنے کے موضوع کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Af6m
تصویر: Fotolia

جرمن شہر لیور کوزن کے فرائی ہر فان اسٹائن جمنازیم ’ Freiher von Stein Gymnasium ‘ میں ڈیٹا سکیورٹی کا موضوع بھی کورس میں شامل کیا گیا ہے۔ بچوں کے لیے بھی انٹرنیٹ کوئی کم خطرناک جگہ نہیں ہے۔ کیونکہ سائبر کی دنیا میں بھی جرائم پیشہ افراد کی کمی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اسکول انتظامیہ نے والدین کی رضامندی کے ساتھ بچوں کو انٹرنیٹ کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈیٹا سکیورٹی کے موضوع کو کورس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران طالبہ و طالبات پر واضح کیا گیا کہ انٹرنیٹ کس حد تک محفوظ ہے اور اس کا محفوظ طریقے سے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں اسکول نے جرمنی میں ڈیٹا پروٹیکشن پروفیشنلز کی تنظیم سے منسلک کرسٹینا کوہن کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس موقع پر کرسٹینا کوہن نے کلاس روم میں موجود طلبہ سے سب سے پہلا سوال کیا کہ فیس بک پر کس کا اکاؤنٹ ہے؟ جواب میں کلاس میں موجود تقریباً سبھی بچوں نے ہاتھ اٹھا دیے۔ ان میں وہ بچے بھی شامل تھے، جن کی عمریں ابھی صرف چودہ پندرہ برس ہیں۔ کرسٹینا کوہن نے بتایا کہ اس سماجی ویب سائٹ پر کچھ بھی پوسٹ کیا جائے یا اس کے ذریعے کسی سے بات چیت کی جائے تو یہ سب کچھ فیس بک پر محفوظ ہو جاتا ہے اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔ یہ بات سن کر کلاس میں موجود تمام بچے حیران رہ گئے۔

یہ معلومات سننے کے بعد طلبہ کی دلچسپی اور بھی بڑھ گئی اور کرسٹیان کوہن پر سوالات کی بوچھاڑ ہو گئی۔ اس دوران کرسٹینا کو اندازہ ہو گیا کہ نوجوان انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائٹس کے بارے میں جانتے تو ہیں لیکن انہیں اس سے جڑے خطرات سے اچھی طرح واقفیت نہیں ہے۔

حال ہی میں انٹرنیٹ اور معیشت کے ایک جرمن ادارے کی جانب سے کرائے جانے والے ایک جائزے کے مطابق دس اور اٹھارہ سال کی درمیانی عمر کے تقریباً تمام نوجوان روزانہ آن لائن فلمیں یا ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ چیٹنگ اور میوزک سننا بھی ایک لازمی مشغلہ بن چکا ہے۔ ان میں سے تقریباً پچھتر فیصد سماجی ویب سائٹس کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس میں فیس بک سرفہرست ہے۔ کرسٹینا کوہن کے مطابق فیس بک صارفین کی معلومات فروخت کر کے اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ کمپنیاں تو نوکری دینے سے قبل درخواست دہندہ کے اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے فیس بک کی انتظامیہ سے رابطہ کرتی ہیں اور بدلے میں پیسے دیے جاتے ہیں۔ اس معلومات نےکلاس روم میں موجود طلبہ کی حیرت میں مزید اضافہ کر دیا۔

کرسٹیان کوہن نے مزید بتایا کہ طویل اور بظاہر مشکل دکھائی دینے والے پاس ورڈ کو بھی انتہائی آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول پاس ورڈ بناتے وقت کیپیٹل اور اسمول لیٹرز کے امتزاج کے علاوہ نمبر اور اسپیشل کریکٹرز کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاس ورڈ کو ہر تھوڑے دن بعد تبدیل بھی کر دینا چاہیے۔ اپنے لیکچر کے اختتام پر کرسٹینا کوہن نے اس امید کا اظہار کیا کہ طلبہ کے ساتھ اساتذہ اور والدین بھی ڈیٹا سکیورٹی کے موضوع کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے مشوروں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔