1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کمبوڈیا میں: چین امریکا تعلقات زیر بحث

Kishwar Mustafa20 نومبر 2012

باراک اوباما نے کہا، ’دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں، چین اور امریکا پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل کر پائیدار ترقی کے لیے کام کریں اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے واضح قوانین تشکیل دیں‘۔

https://p.dw.com/p/16mDY
تصویر: Reuters

ہوُ تھائی لینڈ، میانمار اور اب کمبوڈیا، امریکی صدر باراک اوباما اپنے تین ملکی دورہء ایشیا کی آخری منزل پہنچ گئے ہیں۔ اُن کے کمبوڈیا کے دورے کی بھی سب سے خاص بات یہی ہے کہ وہ اس ملک کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں۔ اوباما نے آج کمبوڈیا میں ہونے والے جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔

دوبارہ منتخب ہونے والے امریکی صدر باراک اوباما کا میانمار میں جس گرم جوشی سے استقبال ہوا تھا، اُس کے مقابلے میں کمبوڈیا میں انہیں نسبتاﹰ خاموش اور پُر سکون ماحول ملا۔ مبصرین کے مطابق نوم پہنہ کی سڑکوں پر اوباما کے استقبال کے لیے کھڑے افراد کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی، نہ ہی شہر میں کوئی خاص گہما گہمی نظر آ رہی تھی تاہم اوباما کی کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہوُ سین کے ساتھ ملاقات خاصے کشیدہ ماحول میں ہوئی۔ اوباما نے اس موقع پر کمبوڈیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک صحافی کو سنائی جانے والی بیس سال قید کی سزا کا حوالہ بھی دیا۔ ہوُ سین نے اس کے جواب میں کہا کہ ان کے ملک کا انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ اچھا ہے تاہم اس کے بارے میں چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

21. ASEAN Treffen in Phnom Penh Gruppenfoto Obama und Gillard
آسیان کے اجلاس میں متعدد عالمی لیڈران موجود ہیںتصویر: REUTERS

کمبوڈیا کے عوام ملکی سیاست سے نا خوش ہیں۔ خاص طور سے نوم پہنہ میں بوئے اُونگ کاک جھیل کے ارد گرد بسنے والوں کو حکومت کی طرف سے ان کی زمینوں سے جبری طور پر بے دخل کر دیے جانے کی وجہ سے یہ باشندے انتہائی ناراض ہیں۔ حکومت نے ان علاقوں میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ اس منصوبہ بندی کے شکار ایک باشندے نے باراک اوباما تک اپنی شکایت پہنچانا چاہی۔ اُس کا کہنا تھا،’میں صدر باراک اوباما سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہمارے وزیر اعظم سے اس بارے میں بات کریں کہ ہمیں بغیر کسی زر تلافی کے، ہماری زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا اور بدلے میں کوئی زمین بھی نہیں دی گئی حالانکہ اس کا وعدہ کیا گیا تھا‘۔

باراک اوباما ایک ایسے موقع پر کمبوڈیا میں ہیں جب وہاں ہونے والی آسیان کانفرنس میں علاقائی سمندری تنازعات کا موضوع خطے میں غیر معمولی کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ اوباما نے کمبوڈیا میں چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ سے بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات چین میں سیاسی تبدیلیوں کی تیاریوں اور امریکا میں ڈیموکریٹ اوباما کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد عمل میں آئی ہے۔

21. ASEAN Treffen in Phnom Penh Gruppenfoto Obama und Hun Sen
نوم پہنہ میں اوباما اور ہوُ سین کی ملاقاتتصویر: REUTERS

باراک اوباما نے اس موقع پر کہا، ’دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں، چین اور امریکا پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل کر پائیدار ترقی کے لیے کام کریں اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے واضح قوانین تشکیل دیں‘۔

اوباما کے یہ بیانات چین اور امریکا کے مابین پائے جانے والے کرنسی اور تجارتی تنازعات کی طرف اشارہ ہیں۔ اوباما خاص طور سے فکری املاک کی چوری اور تجارتی محصولات کے حوالے سے امریکا کی موجودہ اور سابق انتظامیہ اور چین کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کا ‌ذکر کرنا چاہتے تھے۔

وین جیا باؤ نے اوباما کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور چین کے نو منتخب کمیونسٹ پارٹی لیڈر شی جن پنگ کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام بھی دیا۔ چینی وزیر اعظم نے مزید کہا، ’ہم بزنس، معیشت اور مالی معاملات میں اشتراک عمل کے ساتھ تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں اور اس طرح دونوں ملکوں کے مابین دشواریاں اور اختلافات بھی مٹائے جا سکتے ہیں‘۔

km / mm (AFP)