1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا متوقع دورہ ترکی

23 جنوری 2024

ذرائع کے مطابق ایرانی صدر اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ غزہ تنازعے کے مشرق وسطیٰ کے خطے پر اثرات کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔

https://p.dw.com/p/4bb72
Iran | Präsident Ebrahim Raisi
تصویر: Iranian Presidency/dpa/picture alliance

سفارتی ذرائع اور ایران سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی چوبیس جنوری بروز بدھ ایک روزہ سرکاری دورے پر ترکی پہنچیں گے، جہاں وہ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے مشرق وسطیٰ کے خطے پر اثراتکے حوالے سے بات چیت کریں گے۔

سفارتی ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا کہ رئیسی اس دورے کے دوران اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن  سے انقرہ میں ملاقات کریں گے۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایرانی صدر اس دورے کے موقع پر ایک "اعلی سطح کے سیاسی اور اقتصادی وفد کی قیادت کریں گے"۔

ایرانی صدر کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے باعث اس سے قبل پہلے نومبر اور پھر رواں ماہ کے آغاز پر ، یعنی دو مرتبہ ملتوی ہو چکا ہے۔

وہ یہ دورہ ایک ایسے پر وقت کر رہے ہیں جب غزہ میں اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حماس کے مابین جاری جنگ کے خطے پر اثرات کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں ایران کا کردار

اس جنگ کا آغاز اسرائیل نے سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد کیا تھا، جس میں اے ایف پی کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 1,140 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دوسری جانب حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق وہاں اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 25,490 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔

اس جنگ کے دوران ایران اسرائیل پر کڑی تنقید کرتا رہا ہے اور پیر کو رئیسی نے ایک بیان میں اس امر پر زور دیا کہ اسرائیل کو شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینیئر جنرل کے قتل کی "قیمت یقینی طور پر ادا کرنی پڑے گی"۔

دوسری جانب آج امریکہ اور برطانیہ نے دوسری مرتبہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ یہ کارروائی غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کے جواب میں کی گئی۔

اس طرز کی پہلی کارروائی بھی اسی مہینے کی گئی تھی، جس کی مذمت کرتے ہوئے ترک صدر ایردوآن نے امریکہ اور برطانیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ بحیرہ احمر میں "خون ریزی" چاہتے ہیں۔

م ا ، ش ر (اے ایف پی)