1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا اور بحرالکاہل میں طاقت اور تسلط کی دوڑ

کشور مصطفیٰ2 فروری 2015

پیر کو چین نے دونوں ممالک بھارت اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں گرمجوشی اور مضبوطی لانے کا عندیہ دیا۔

https://p.dw.com/p/1EUSn
تصویر: Reuters/R. Dela Pena

آبادی کے اعتبار سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک چین اور بھارت کے تعلقات باہمی شک اور عدم اعتماد کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود چینی صدر شی جن پنگ نے بھارت اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو سراہا ہے۔

پیر کو چین نے دونوں ممالک بھارت اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں گرمجوشی اور مضبوطی لانے کا عندیہ دیا۔ وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک بیان میں کہا کہ "چین بھارت تعلقات کے مثبت پہلوؤں میں ترقی اور بہتری رونما ہو رہی ہے۔ ہمارے تعاون کی رفتار میں بھی تیزی آ رہی ہے"۔ بھارتی وزیر خارجہ نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا ہے جب بیجنگ میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف بھی موجود ہیں اور وہاں سہ فریقی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان مذاکرات کو غیر معمولی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ یہ امریکی صدر باراک اوباما کے حالیہ دورہ بھارت کے فوراً بعد عمل میں لائے جا رہے ہیں۔

اوباما نے گزشتہ ہفتے اپنے تین روزہ دورہ بھارت کے موقع پر "ایشیا بحر الکاہل میں بھارت کے اہم کردار کا خیر مقدم کیا تھا"۔ امریکا اور بھارت دونوں ہی علاقائی سطح پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاہم اوباما کے دورے کے موقع پر ان دونوں میں سے کسی نے بھی براہ راست چین کا نام نہیں لیا لیکن اپنے عزائم ظاہر کر دیے تھے۔ اس ضمن میں اوباما نے یہ بھی کہا تھا کہ ایشیا بحر الکاہل کے علاقے کی بحری آزادی قائم رہنی چاہیے۔ یاد رہے کہ بیجنگ جنوبی بحر چین کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر اپنی خود مختاری کا دعویدار ہے۔

Xi Jinping mit Sergei Lawrow 02.02.2015 Peking
شی جن پنگ کی سیرگئی لاوروف سے ملاقاتتصویر: Reuters/R. Dela Pena

پیر کو بیجنگ میں بھارت اور روس کے وزرائے خارجہ کی اُن کے چینی ہم منصب کے ساتھ سہ فریقی ملاقات کے ساتھ ساتھ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کو بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ چینی صدر نے ایک طرف سشما سوراج سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "گزشتہ ستمبر میں اُن کے دورہ بھارت کے بعد سے نئی دہلی اور بیجنگ کے تعلقات ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں"۔

دوسری جانب روسی وزریر خارجہ سیرگئی لاوروف سے ملاقات کے بعد بھی شی جن پنگ کا یہی کہنا تھا کہ وہ چین روس تعلقات سے مطمئن ہیں۔

ماسکو اور بیجنگ سرد جنگ کے دوران پہلے ایک دوسرے کے اتحادی اور بعد میں مخالف رہے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر اکثر معاملات میں ان دونوں نے متحد ہو کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کے خلاف اسٹینڈ لیا ہے کیونکہ ان دونوں کے پاس ویٹو کا حق ہے۔

چین اور بھارت نے انتہائی تیزی سے اقتصادی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں۔ چین یوکرائن میں کریمیا کے قبضے کے بعد سے مغربی ممالک کی پابندیوں کا شکار ہے اس لیے اپنے وسیع ہائڈرو کاربن وسائل کی کھپت کے لیے مستحکم منڈیوں کی تلاش میں ہے۔

Indien Barack Obama in Neu Delhi 25.01.2015
اوباما کے حالیہ تین روزہ دورہ بھارت کے بعد بھارتی وزیر خارجہ چین کے دورے پر گئی ہیںتصویر: Reuters/J. Bourg

شی نے لاوروف سے مذاکرات کے دوران کہا، " گزشتہ برسوں کے دوران چین اور روس نے مجموعی طور پر اسٹریٹیجک تعلقات میں بہتری کی راہ ہموار کر لی ہے۔ ہماری مشترکہ کوششیں اہم نتائج کا سبب بنی ہیں۔ ہمارا باہمی تعاون اس سے پہلے کبھی اتنا گہرا نہیں ہوا تھا"۔ اس موقع پر لاوروف نے کہا کہ شی جن پنگ اور اُن کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن نے گزشتہ برس پانچ بار ملاقات کی تھی۔

دریں اثناء بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ رواں برس مئی میں وزیراعظم نریندر مودی چین کا تین روزہ سرکاری دورہ کریں گے اور بھارتی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ چینی صدر شی جِن پِنگ وزیراعظم مودی کو اپنے آبائی مقام شانشی بھی لے جائیں گے تاکہ وہ اُس میزبانی کا جواب دیں سکیں جو انہیں گزشتہ برس ستمبر میں بھارتی دورے کے دوران دی گئی تھی۔