1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایورسٹ کو پہلی بار سر کیے 61 برس ہو گئے

امتیاز احمد29 مئی 2014

انتیس مئی 1953ء کو پہلی مرتبہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا گیا تھا۔ یہ کارنامہ ایڈمنڈ ہلیری اور تینزنگ نارگے نے انجام دیا تھا۔ آج اُس پہلی مہم میں شریک صرف ایک شخص زندہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1C94u
تصویر: picture-alliance/AP Photo

آج جمعرات کے روز چند دیگر ملکوں کے علاوہ نیپال میں بھی اس چوٹی کے پہلی بار سر کیے جانے کی 61 ویں سالگرہ منائی گئی، جس کی قیادت ایورسٹ کو سر کرنے کی پہلی مہم میں شامل واحد زندہ کوہ پیما 81 سالہ کانچا شرپا نے کی۔ اکسٹھ برس قبل یہ چوٹی تو نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلیری اور ان کے بھارتی نژاد نیپالی شرپا (گائیڈ) تینزنگ نارگے نے سر کی تھی لیکن آغاز میں کانچا شرپا بھی ان کے ساتھ تھے اور راستے میں قائم آخری کمیپ تک ان کے ساتھ ہی رہے تھے۔ آج کھٹمنڈو میں اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ ہم سبھی اس دن بہت خوش تھے اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا دن تھا۔‘‘

گزشتہ روز ہونے والی ایک دوسری تقریب میں ان سولہ شرپا یا گائیڈز کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا، جو گزشتہ ماہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کمیپ میں برفانی تودے گرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔

1953ء کے بعد سے کوہ پیماؤں کی ایک بڑی تعداد مجموعی طور پر چھ ہزار سے زائد مرتبہ اس چوٹی کو سر کر چکی ہے۔ ایڈمنڈ ہلیری اور تینزنگ نارگے ایورسٹ کو سر کرنے والی پہلی برطانوی ٹیم کا حصہ تھے۔ اس ٹیم میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے جارج لووے بھی شامل تھے۔ ان کا انتقال 89 برس کی عمر میں 2013ء ہوا تھا۔ جارج لووے اس تاریخی کامیابی پر ایڈمنڈ ہلیری اور تینزنگ نارگے کو مبارکباد دینے والے پہلے شخص تھے۔

یہ چوٹی پہلی بار سر کیے جانے کی خبر یکم جون 1953ء کو ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی کے روز برطانیہ پہنچی تھی۔ تب برطانوی عوام کی خوشیاں دوبالا ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ہلیری اور اس مہم جو ٹیم کے سربراہ جان ہنٹ کو ’سر‘ کے خطابات سے نوازا گیا تھا جبکہ تینزنگ نارگے کو جارج میڈل دیا گیا تھا۔ یہ برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا سول اعزاز ہے۔ نارگے 1986ء میں71 برس کی عمر میں جبکہ سر ہلیری 2008ء میں 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

ماؤنٹ ایورسٹ کو فتح کرنے کے لیے دنیا بھر سے ہر سال کوہ پیماؤں کی مختلف ٹیمیں نیپال کا رخ کرتی ہیں۔ اب تک اس چوٹی کو چھ ہزار مرتبہ سے بھی زیادہ بار سر کیا جا چکا ہے۔ اس چوٹی پر چڑھنے کے خواہش مند افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ایڈمنڈ ہلیری نے ایک مرتبہ کہا تھا، ’’یہ وہ لوگ ہیں، جوکوہ پیمائی کے بارے میں بہت کم ہی جانتے ہیں۔ ان کے لیے پہاڑ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کا مقصد صرف اس کی چوٹی تک پہنچنا ہوتا ہے تاکہ واپس جا کر وہ شیخیاں مار سکیں۔‘‘

ایڈمنڈ ہلیری کی طرح اطالوی کوہ پیما رائن ہولڈ میسنر کا بھی یہی موقف ہے کہ ایورسٹ کو فتح کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد کو محدود کیا جانا چاہیے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور دنیا کی یہ سب سے بلند پہاڑی چوٹی اب نیپالی حکومت کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہے۔