1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

120212 Atomkraft weltweit

Kishwar Mustafa9 مارچ 2012

ایک طرف دنیا کے مختلف ممالک، خاص طور سے یورپی ریاستیں ایٹمی بجلی گھروں کو بند کر رہی ہیں تو دوسری جانب امریکا نئ تنصیبات لگا رہا ہے

https://p.dw.com/p/14IMW
اوباما دور میں امریکا کی جوہری توانائی سے متعلق پالیسی میں تبدیلیتصویر: Reuters

امریکی صدر باراک اوباما جوہری توانائی کے واشگاف حامی ہیں۔30 سالوں تک امریکا میں کسی نئے ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر کی اجازت نہیں تھی، تاہم یہ صورتحال صدر باراک اوباما کے دور میں تبدیل ہوئی۔

 پہلے سے موجود Vogtle جوہری بجلی گھر کے دو نئے ری ایکٹرز امریکی ریاست جورجیا میں بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ان کی تعمیر پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ 14 بلین ڈالر بتایا جاتا ہے۔ آئندہ چار سے پانچ سال کے دوران یہ ری ایکٹرز فعال ہو جائیں گے۔ اُدھر مزید ایٹمی تنصیبات کے قیام کے منصوبے کی درخواست واشنگٹن حکومت کے سامنے پیش کی جا چُکی ہیں۔

تاہم صرف امریکا ہی میں ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے نہیں پائے جاتے۔ اب ایشیاء بھی اس کی ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتا ہے۔  چین اور بھارت میں غالباﹰ کم از کم درجن بھر ایٹمی پاور پلانٹ پائے جاتے ہیں۔ جاپان میں فوکوشیما کے ایٹمی پلانٹ کے خوفناک حادثے کے بعد بھی ایشیائی ریاستیں اپنے بنیادی جوہری پروگراموں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

China Atomkraftwerk Baustelle Tangxing
چین کا ایٹمی بجلی گھرتصویر: picture-alliance/dpa

پولینڈ کی ایٹمی قوت دس سالوں میں؟   

ایسے ممالک جو اب تک اس نوعیت کے ایٹمی پلانٹس نہیں تعمیر کر پائے تھے وہ بھی اب اس جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یورپی ملک پولینڈ جو اب تک بجلی کے حصول کے لیے کوئلے پر انحصار کرتا تھا، ایٹمی پلانٹ کی منصوبہ بندی پر تیزی سے گامزن ہے۔  پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے جرمنی کی طرف سے جوہری توانائی کے استعمال سے دست بردار ہونے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے  کہا’ اگر کوئی ایٹمی بجلی گھر نہیں تعمیر کرنا چاہتا تو یہ اُس کا مسئلہ ہے۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جہاں توانائی کا معاملہ ہو وہاں جوہری توانائی ایک بہتر متبادل ہے‘۔

ایٹمی بجلی گھروں کی تعداد میں کمی ہوگی

پہلے کی طرح اب بھی بہت سے ممالک بجلی کے حصول کے لیے ایٹمی توانائی پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ تاہم جرمنی کی جوہری سیاست کی ماہر ریبیکا ہارمس کا خیال ہے کہ مجموعی طور پر ایٹمی بجلی گھروں کی تعداد کم ہوگی۔ اسی قسم کے خیالات ماہر امور ماحولیات لُٹس مس کے بھی ہیں۔ فرانس جیسے یورپی ملک میں بھی ، جہاں ایٹمی بجلی گھروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔

Iran Atomprogramm Ahmadinedschad
ایران کے ایٹمی پروگرام پر مغرب کی تشویشتصویر: picture alliance / dpa

چین اور بھارت کی توانائی کی بھوک

اُبھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں کی ترجیحات علیحدہ ہیں۔ تنہا چین کو اپنی اقتصادی نمو کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ 60 ہزار میگا واٹ بجلی کی سپلائی کی ضرورت ہے۔ چین میں زیادہ تر کوئلے کے بجلی گھر موجود ہیں۔ ہر دو ہفتے میں چین 500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا کوئلے کا یونٹ لگاتا ہے۔ چین میں گزشتہ چند برسوں کے اندر قابل تجدید توانائی کے حصول کے لیے حکومت زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

رپورٹ: ینزن کلاؤس/ کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد