1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اور بیٹی کو ’مرد کی انا‘ کی بھینٹ چڑھا ديا گيا

بینش جاوید
30 جنوری 2018

پاکستانی سپریم کورٹ نے صوبہ خیبر پختونخوا میں میڈیکل کالج کے تیسرے سال کی طالبہ کو شادی سے انکار کر دینے کے سبب قتل کر دیے جانے کا منگل کے روز از خود نوٹس لیا۔

https://p.dw.com/p/2rl7M
Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: Getty Images

پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق اس لڑکی کو ایک شخص نے شادی سے انکار کر دینے کے باعث جان سے مار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس لڑکی کی وہ ویڈیو وائرل ہو گئی ہے جس میں گولیاں لگنے کے بعد وہ اپنے قاتل کا نام لے رہی ہے۔ یہ لڑکی شدید زخموں کے باعث بچ نہ سکی۔ پاکستانی انگریزی اخبار ڈان کے مطابق اس کیس کے بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نصار کا کہنا تھا، ’’ ہم نے سنا ہے کہ خیبر پختونخوا کی پولیس میں بہتری آئی ہے، یہ پولیس اس لڑکی کے قتل کے بعد کیا کر رہی ہے ؟‘‘ 

رپورٹس کے مطابق  دو بھائیوں نے عاصمہ نامی لڑکی پر فائرنگ کر کے اسے ہلاک کر دیا جو کالج کی چھٹیوں میں اپنے اہل خانہ سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ لڑکی نے ہلاک ہونے سے پہلے ایک ویڈیو میں اپنے قاتل کا نام ریکارڈ کرا دیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس لڑکی کو قتل کرنے والا ایک بھائی، جو کہ مرکزی ملزم ہے، ملک سے فرار ہو گیا ہے۔

شرمندگی کا مطالبہ مظلوم خواتین سے ہی؟

چاقو کے درجنوں وار سہنے والی بہادر خدیجہ

اور کتنی زینبیں سماجی، سیاسی زبوں حالی کی بھینٹ چڑھیں گی؟

پاکستان میں مختلف سماجی حلقوں سے طرف سے اس نوجوان طالبہ کے قتل پر شدید  مذمت کی جا رہی ہے۔ لاہور میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن اور تھیٹر آرٹسٹ نعیمہ بٹ نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بد قسمتی سے پاکستان میں بہت سے مرد، عورت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، چاہے ان کی اس سے شادی ہوئی ہو یا نہیں۔ وہ انہیں کمزور سمجھتے ہیں اور ان کی جانب سے انکار مردوں کی انا کو تکلیف پہنچاتا ہے۔‘‘ بٹ نے مزید کہا کہ  ہمیں مردوں کو عورتوں کی آراء کی عزت کرنا سکھانا ہوگی اور ساتھ ہی عورتوں کو بھی اپنا تحفظ کرنا سيکھنا ہوگا۔

صبا نام کی دو لڑکیاں لیکن تقدیریں کتنی مختلف

پاکستانی صحافی ماریہ میمن نے عاصمہ کے لیے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ’’ایک خوبصورت لڑکی جس نے بہت اونچے خواب دیکھے تھے۔ اس سے اس کی زندگی انتہائی ظلم اور بربریت سے چھین لی گئی صرف اس لیے کیوں کہ ایک مرد کی انا مجروح ہوئی تھی۔‘‘

ٹوئٹر کی ایک صارف نے خیبر پختونخوا کی پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا، ’’ساڑھے چار سال میں عمران خان نے ماڈل پولیس بنا لی ہے لیکن یہ پولیس نہ شریفہ بی بی ، نہ مشال خان اور نہ ہی عاصمہ کے قاتلوں کو پکڑ سکی۔‘‘

ٹوئٹر ہی کی ایک اور صارف، ماریہ نے لکھا،’’ ایک عورت کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کیوں کہ اس نے شادی کی پیشکش قبول نہیں کی۔ کیا مردوں کی انا اتنی کمزور ہے کہ عورتیں اس پریشانی کے ساتھ سانس بھی نہیں لے سکتیں کہ کہیں ان کی کوئی بات ان کی مردانگی کو ٹھیس نہ پہنچا دے۔‘‘ 

 ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ کئی عورتوں پر رشتے سے انکار کر دینے کی سزا کے طور پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے یا انہیں قتل کر کے ان کا وجود ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ سماجی ماہرین کی رائے میں پاکستان میں نہ صرف قانون پر عملدرآمد بلکہ عورتوں کے حوالے سے مردوں کی سوچ اور ان کے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔