بابری مسجد کے انہدام کی 20 ویں برسی
6 دسمبر 2012قریب پا نچ سو برس قبل 1527ء میں مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے حکم پر صوبہ اترپردیش کے ایودھیا میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کے انہدام کی بیسویں برسی کے موقع پر آج جمعرات کو ملک بھر میں سکیورٹی کے زبردست انتظامات کیے گئے ہیں۔ ایودھیا شہر کو تقریبا ایک قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، نیم فوجی دستوں کے دس ہزار سے زائد جوان تعینات کیے گئے ہیں، بھارتی نیپالی سرحد کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے اور ملک کے بیشتر، بالخصوص فرقہ وارانہ حوالے سے حساس شہروں میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
ادھر بابری مسجد کے انہدام کا معاملہ آج پارلیمان میں بھی اٹھایا گیا۔ متعدد مسلم ارکان پارلیمان نے ایوان میں سیاہ پرچم دکھائے اور بابری مسجد کے انہدام میں ملوث ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کیے جانے کا مطالبہ کیا جبکہ شدت پسند ہندو تنظیم شیو سینا اور ہندوؤں کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین نے اس کی مخالفت کی۔
ہنگامے کی سی صورت حال کی وجہ سے ایوان کی کارروائی ملتوی کرنا پڑ گئی۔ اس ہنگامے کے دوران ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں پاکستان سے آیا ہوا ایک وفد بھی اسپیشل باکس میں موجود تھا، جو پارلیمان کی کارروائی دیکھنے کے لیے آیا ہوا تھا۔
یہاں نئی دہلی میں ماہرین سماجیات کا خیال ہے کہ 1947ء میں برطانوی تسلط سے آزادی اور 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کا انہدام ایسے دو بڑے واقعات ہیں، جنہوں نے بھارت کے پورے سماجی اور سیاسی نظام کو بدل کر رکھ دیا۔ مشہور تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بابری مسجد کی شہادت نے سماجی اور سیاسی حالات نیز بین البرادری تعلقات پر بھی زبردست اثر ڈالا ہے۔ اس سانحے نے بھارت کے سیکولر تانے بانے کو تباہ کر دیا اور سماج میں ایک خلیج پیدا کردی، جسے پاٹنا مشکل ہے۔‘‘
ڈاکٹر عالم کے مطابق شدت پسند ہندو تنظیموں سے وابستہ تعلیم یافتہ طبقہ اس بات سے پریشان تھا کہ ملک کی آزادی میں قوم پرست ہندوؤں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کا کوئی رول نہیں ہے، لہٰذا وہ کسی جذباتی معاملے پر ہندوؤں کو یکجا کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں انہیں رام مندر کا معاملہ سب سے آسان دکھائی دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی، شیو سینا، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد وغیرہ نے بابری مسجد کو منہدم کر کے یہ مقصد حاصل کر بھی لیا اور بی جے پی ملک کے اقتدار پر قابض ہو گئی، لیکن وہ اس کو زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رکھ سکی۔ اس کے نتیجے میں ان کا فطری زوال بھی شروع ہوگیا۔
ماہر سماجیات ڈاکٹر منظور عالم کے مطابق، ’’شدت پسند ہندو اپنے چند سالہ دور اقتدار میں ملک کی پوری بیورو کریسی اور سرکاری مشینری کو زہر آلود کرنے میں کامیا ب ہو گئے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو خلیج پیدا کی گئی، اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس سے تاہم سیکولر ذہن کے حامل ہندوؤں کا یہ بھرم ٹوٹ گیا کہ ہندوتوا کے علمبرداروں کو ملک کی تعمیر و ترقی سے کسی طرح کی دلچسپی ہے۔
خیال رہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد سب سے زیادہ نقصان سیکولرازم کی علمبردار اور موجودہ حکمران کانگریس پارٹی کو ہوا ہے۔ پارٹی کو اس سانحے کے بعد سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش اور بہار میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور وہ اب تک اس نقصان کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
گزشتہ برس الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عجیب و غریب فیصلہ سنایا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا اور اب یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر غور ہے۔ ڈاکٹر محمد منظور عالم کے مطابق مسلمانوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے بہرحال مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس معاملے کی پیروی کے لیے ملک کے بہترین ماہرین قانون کی خدمات حاصل کریں جو حقائق کو صحیح انداز میں عدالت کے سامنے رکھ سکیں۔
دریں اثناء بابری مسجد کے حوالے سے شائع ایک تازہ ترین کتاب ’ایودھیا، دی ڈارک نائٹ‘ میں مصنفین کرشنا جھا اور دھریندر جھا نے انکشاف کیا ہے کہ 1939ء میں بابری مسجد کے اندر بھگوان رام کی مورتی کے معجزاتی طور پر نمودار ہونے کا اعلان کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے، جن پر مہاتما گاندھی کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا البتہ بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ مورتی رکھے جانے کے اس واقعے کے بعد ہی بابری مسجد یا رام مندر کے تنازعے نے زیادہ زور پکڑنا شروع کیا تھا۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: عصمت جبیں