1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برکس، ناکام امیدوں کی تنظیم: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

عدنان اسحاق الیگزانڈر فروئنڈ
3 ستمبر 2017

ڈوئچے ویلے کے الیگزانڈر فروئنڈ کی رائے میں برکس سمٹ کو صرف ان ممالک، جن سے ماضی میں امیدیں وابستہ تھیں، کا اجلاس بننے سے روکنے کے لیے بھارت کو چاہیے کہ وہ میزبان ملک چین کے لیے اسٹیج پوری طرح خالی نہ چھوڑے۔

https://p.dw.com/p/2jHkh
China | Xiamen bereit sich auf den 9. BRICS summit vor
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

ڈی ڈبلیو شعبہ ایشیا کے سربراہ الیگزانڈر فروئنڈ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ برکس سمٹ کے میزبان ملک چین کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے انیسویں اہم تنظیمی اجلاس سے قبل اپنی عظمت اور اہمیت کا ایک مرتبہ پھر مظاہرہ کرنے کا یہ ایک اہم موقع ہے، صرف بیرون ملک ہی نہیں بلکہ اندرون ملک بھی۔ یہ اجلاس تین سے پانچ ستمبر تک چینی شہر ژیامن میں جاری رہے گا۔ اس دوران ایسے پیچیدہ مسائل کو ایجنڈےمیں شامل ہی نہیں کیا گیا، جو چین کی نئی سیاسی قیادت کی حتمی شناخت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکیں۔ اس کے برعکس BRICS کی رکن ریاستیں ایسے موضوعات پر بات کریں گی، جن پر اتفاق رائے ممکن ہو۔ مثال کے طور پر آزاد تجارت، تحفظ ماحول اور سائبر سکیورٹی۔ اس کے علاوہ کم از کم ڈیجیٹل اکانومی کے حوالے سے مشکلات کا موضوع بھی فی الحال ایجنڈے میں شامل ہے۔ گزشتہ برس بھارتی سربراہی کے دوران اس موضوع کو مرکزی اہمیت حاصل رہی تھی۔

پانچ ممالک کی یہ تنظیم اگر محض ایک ’مخفف‘ ہونے سے آگے بڑھنا چاہتی ہے، تو اسے ایسے مشترکہ موضوعات تلاش کرنے چاہییں جو انہیں ایک دوسرے کے قریب لا سکیں، فروئنڈ

الیگزانڈر فرؤنڈ مزید لکھتے ہیں کہ اس سربراہی اجلاس کا بڑا اسٹیج اور آپس میں اتحاد کا مظاہرہ اس حقیقت کو مخفی نہیں رکھ سکتا کہ اپنے نئے سلک روڈ منصوبے کے بعد چین برکس کے بنیادی خیال سے بہت دور جا چکا ہے۔

امید سے تشویش تک

برکس کے حوالے سے لگائی جانے والی امیدوں میں سے اب بہت کم ہی باقی بچی ہیں۔ رکن ریاستوں کی بے لگام اقتصادی ترقی کا دور اب گزر چکا ہے۔ اس تنظیم کی پانچ رکن ریاستوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کو نئی اقتصادی سپر پاورز قرار دیا جاتا رہا ہے اور اب وہ وقت دور نہیں جب یہ پانچوں ریاستیں مغربی ممالک کی صنعتی ترقی کو پیچھے چھوڑ کر آ گے نکل جائیں گے۔

2016ء میں چین کی اقتصادی نمو کی شرح 6.7 فیصد تھی جبکہ 2018ء کے لیے چھ فیصد کے اندازے لگائے گئے ہیں۔ فروئنڈ کے مطابق منظم انداز میں اقتصادی ترقی کو کم کرتے ہوئے چینی حکومت اپنی داخلی معیشت کو دوبارہ سے ترتیب دیتے ہوئے مضبوط بنانا چاہتی ہے اور سستی اشیاء برآمد کرنے کے بجائے سروس کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

برکس رہنما نہرو جیکٹ میں

BRICS سربراہ اجلاس میں اہم فیصلے

برکس: عالمی معیشت کی بحالی کے لیے متفقہ کوشش کا عزم

برازیل کی ڈرامائی صورتحال

برازیل میں صورتحال اور بھی ڈرامائی ہے، سیاسی اور اقتصادی دونوں سطحوں پر۔ لاطینی امریکی خطے کی امید کی کرن یہ ملک بحرانوں سے باہر ہی نہیں نکل پا رہا۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں بھی اس ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ برازیل کے شہری کم سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ سیاسی بحران پیدا ہونے سے قبل ہی ریاست کے پاس سرمائے کی کمی تھی۔

برکس کی افریقی رکن ریاست جنوبی افریقہ بھی اقتصادی ترقی کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس ملک کی اقتصادی ترقی گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں سست روی کا شکار ہے۔ درآمدات اور برآمدات کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے اور ریاستی قرضوں کا تناسب اپنے عروج پر ہے۔ کمزور معاشی حالات سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں جبکہ بدانتظامی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار خوف زدہ ہیں۔ اس ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔

یہ اجلاس تین سے پانچ ستمبر تک چینی شہر ژیامن میں جاری رہے گا
تصویر: picture-alliance/doa/Imaginechina/Zhou Daoxian

اب باقی بچا بھارت، بھارتی معیشت 7.6 فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے اور اس ملک میں افراط زر کی شرح بھی اب قابو میں ہے۔ ساتھ ہی بھارت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ افسر شاہی نظام میں آسانی پیدا کی گئی ہیں اور ملکی منڈی میں سرمایہ کاری کی خاطر غیر ملکی کمپنیوں کے لیے دروازے کھولے گئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ بھارت کی دو تہائی آبادی نئی سماجی ترقی کے ثمرات سے محروم ہے۔

ڈی ڈبلیو کے الیگزانڈر فروئنڈ لکھتے ہیں کہ بھارت کا برکس تنظیم میں ایک اہم کردار ہے۔ ان کے خیال میں پانچ ممالک کی یہ تنظیم اگر محض ایک ’مخفف‘ ہونے سے آگے بڑھنا چاہتی ہے، تو اسے ایسے مشترکہ موضوعات تلاش کرنے چاہییں جو انہیں ایک دوسرے کے قریب لا سکیں۔

ہمارا ہمسایہ ملک ’دہشت گردی کا گڑھ‘ ہے، مودی

’برکس‘ ملکوں کی طرف سے یورپ کی ممکنہ مدد، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ