1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد کو جانا ہوگا، اوباما کا اقوام متحدہ سے خطاب

شامل شمس28 ستمبر 2015

امریکی صدر باراک اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ وہ شام کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے روس اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم شامی صدر اسد کو اقتدار چھوڑنا ہوگا۔

https://p.dw.com/p/1Gevo
تصویر: Reuters/M. Segar

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے روس کو انتباہ کیا کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کی حمایت سے باز رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کی پابندی تمام اقوام کو کرنا ہوگی۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو نافذ ہوئے ستر برس ہو گئے اور اب بعض حلقے یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور قوموں کو پرانے طریقے اخیتار کر لینے چاہییں، ’’اس بنیاد پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ چند طاقتیں کچھ اس طرح کے عمل کا مرتکب ہو رہی ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہو رہا ہے۔‘‘

اوباما شام کا براہ راست ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اگر اسی منطق کو مان لیا جائے تو ہمیں بشار الاسد جیسے آمروں کی حمایت کرنی چاہیے، جو معصوم بچوں پر بیرل بم برسا رہا ہے، کیوں کہ متبادل اس سے بھی برا ہے۔‘‘

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ واشنگٹن شامی تنازعے کے حل کے لیے دیگر عالمی طاقتوں کی طرح ایران اور روس ساتھ بھی مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ خطاب میں انہوں نے البتہ واضح کیا کہ شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ ہونا پڑے گا۔

اوباما آج نیو یارک میں متوقع طور پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی ملاقات کریں گے، جس میں شام کے علاوہ یوکرائن کا تنازعہ بھی زیر بحث آنے کا امکان ہے۔

دوسری جانب روسی صدر ولادمیر پوٹن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ صدر اسد سے تعاون نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی کیوں کہ انہی کہ پاس شدت پسند تنظیم ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ یا داعش سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہے۔ ’’صدر اسد کی افواج دہشت گردوں سے رو بہ رو مقابلہ کر رہی ہیں۔ ہمیں بالآخر اعتراف کرنا چاہیے کہ صدر اسد کی فوجیں اور کرد ملیشیا ہی اصل میں داعش اور شام میں موجود دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاق کارروائی کر رہے ہیں۔‘‘

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام کی صورت حال پر عالمی فوج داری عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ بان کی مون نے پہلی مرتبہ شامی تنازعے کو عالمی عدالت لے جانے کے حوالے سے کوئی بیان دیا ہے۔آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام کے شہری بیرل بموں اور دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں اور اس عمل کو روکنے کے لیے عالمی برداری کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

آج ہی چینی اور ایرانی صدور بھی اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید