1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: امیر جماعت اسلامی کے خلاف فیصلہ عین وقت پر ملتوی

امتیاز احمد24 جون 2014

بنگلہ دیش میں ’جنگی جرائم سے متعلق خصوصی عدالت‘ کو عین وقت پر جماعت اسلامی کے ایک رہنما کے خلاف فیصلہ ملتوی کرنا پڑا ہے۔ مطیع الرحمان نظامی کو ممکنہ طور پر سزائے موت سنائی جانا تھی۔

https://p.dw.com/p/1CPDS
تصویر: Reuters

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے 71 سالہ امیر مطیع الرحمان نظامی پر الزام ہے کہ وہ سن 1971ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے جنگ آزادی کے دوران ’’جنگی جرائم‘‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں آج انہیں سزا سنائی جانا تھی لیکن ڈاکٹروں نے ان کی عدالت میں حاضری سے چند گھنٹے پہلے کہا کہ وہ جیل میں بیمار ہیں اور انہیں عدالت نہیں لایا جا سکتا۔ پراسیکیوٹر محمد علی کا نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جیل میں موجود ڈاکٹروں نے ان کے ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے کہا ہے کہ انہیں عدالت نہیں لے جایا جا سکتا۔‘‘

عدالت نے کہا ہے کہ فیصلہ سنانے کے لیے اب نئی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ جج عنایت الرحیم کا بھری عدالت میں کہنا تھا، ’’وکیل استغاثہ اور وکیل دفاع کے بیانات سننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملزم کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنانا غیر منطقی بات ہے۔‘‘ مجموعی طور پر مطیع الرحمان نظامی کو سن 1971ء کی جنگ کے دوران تشدد، بڑے پیمانے پر قتل، عصمت دری، آتش زنی اور نسل کُشی جیسے 16 الزامات کا سامنا ہے۔

احتجاجی مظاہروں کا ڈر

دوسری جانب عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ملک کے سیکولر طالب علموں نے فوری طور پر ڈھاکا یونیورسٹی میں جمع ہوتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں ’’جنگی جرائم‘‘ کے ملزموں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ اور احتجاجی مظاہرے کرنے والی تنظیم ’گانو جاگورون مانچا‘ کے سربراہ عمران سرکار کا کہنا تھا، ’’ہم اس تاخیر کے پیچھے سازش دیکھ رہے ہیں۔‘‘ آج کے فیصلے سے پہلے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔ گزشتہ برس اس طرح کے ایک فیصلے اور جماعت اسلامی کے ایک سینئر رہنما کی پھانسی کے بعد بنگلہ دیش بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، جن کے نتیجے میں کم ازکم 200 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

پہلے بھی سزائے موت سنائی گئی تھی

ایک بنگلہ دیشی عدالت رواں برس کے آغاز میں بھی جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی سمیت چودہ افراد کو سزائے موت سنا چکی ہے۔ لیکن یہ سزا دَس سال پہلے بڑے پیمانے پر اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں سنائی گئی تھی۔ سن 2004ء میں ایک بنگلہ دیشی بندرگاہ پر اسلحے کی بھاری مقدار پکڑی گئی تھی۔ تب مبینہ طور پر حکام نے دَس ٹرکوں کے برابر جدید ہتھیاروں اور گولہ بارود کی شمال مشرقی بھارتی علاقوں کو اسمگلنگ ناکام بنا دی تھی۔ مطیع الرحمان نظامی، جو اُس زمانے میں وزیر صنعت تھے، اُن پچاس افراد میں شامل تھے، جن پر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے گروہ کی حیثیت سے اسلحہ رکھنے اور اسمگل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ سزائے موت پانے والوں میں ایک سابق وزیر داخلہ کے ساتھ ساتھ دو بڑے خفیہ اداروں کے سابق سربراہان بھی شامل ہیں۔

’جنگی جرائم کورٹ جانبدار‘

یہ امر اہم ہے کہ جنگی جرائم کی دیگر بین الاقوامی عدالتوں کی طرح بنگلہ دیش کے آئی سی ٹی کو اقوام متحدہ یا ہیومن رائٹس واچ کی طرح کی کسی انٹرنیشنل تنظیم کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اسی لیے انٹرنیشنل ٹریبیونل کہلانے والی اس عدالت کی غیر جانبداری اور اس کی کارکردگی کی شفافیت کو بہت سے حلقوں کی طرف سے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خود بنگلہ دیشی جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا بھی کہنا ہے کہ یہ ٹریبیونل صرف سیاسی محرکات کی وجہ سے قائم کیا گیا ہے اور اس کے فیصلے غلط ہیں۔ اس خصوصی عدالت کا قیام سن 2010ء میں خاتون وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے حکم پر عمل میں آیا تھا۔ تب سے یہ عدالت متعدد اپوزیشن رہنماؤں کو سزائیں سنا چکی ہے۔