1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا ’موت کےخطرے سے دوچار‘

9 اکتوبر 2023

سابق وزیر اعظم کے علاج پر مامور ڈاکٹروں کے پینل کا کہنا ہےکہ انہیں علاج کے لیے فوری طور پر بیرون ملک منتقل کیا جائے۔ حسینہ واجد کی حکومت خالدہ ضیا کی بیرون ملک علاج کی درخواست مسترد کر چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/4XIRD
ehemalige Premierministerin von Bangladesh, BNP Chairperson Khaleda Zia
خالدہ ضیا تصویر: bdnews24.com

بنگلہ دیش میں ڈاکٹروں کے ایک پینل نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو مزید علاج کے لیے فوری طور پر بیرون ملک نہ بھجوایا گیا تو ان کے مرنے کا ''زیادہ خطرہ‘‘ ہے۔ ڈاکٹروں کی طرف سے یہ انتباہ بنگلہ دیشی حکام کی جانب سے خالدہ ضیا کی ملک چھوڑنے کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔

77 سالہ خالدہ ضیا دو مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔  وہ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ ہیں اور 2020 میں 17 سال کی قید کی سزا سے رہائی کے بعد سے گھر میں نظر بندی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ ذیابیطس اور دل کے مسائل کے ساتھ ساتھ جگر کی سوزش یا سیروسس کے عارضے کا شکار ہیں۔

BG Proteste der politischen Parteien Bangladeschs
خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی سیاست میں جنگجو بیگمات کے طور پر جانا جاتا ہےتصویر: AFP/Getty Images

ان کی حریف وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے گزشتہ ہفتے خالدہ ضیا کے خاندان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ انہیں جگر کی پیوند کاری کے لیے جرمنی جانے کی اجازت دی جائے۔

خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی سیاست میں جنگجو بیگمات کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کی باہمی دشمنی 170 ملین آبادی والے اس جنوبی ایشیائی ملک کی سیاست پر چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چھائی ہوئی ہے۔

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک اعلیٰ درجے کے نجی ہسپتال میں گزشتہ دو ماہ سے خالدہ ضیاء کا علاج کرنے والے 17 ڈاکٹروں کے ایک پینل نے ان کے  خاندان کی انہیں بیرون ملک منتقل کرنے کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حالت بگڑ رہی ہے۔ اس پینل میں ہیپاٹولوجسٹ نورالدین احمد نے صحافیوں کو بتایا، "وہ موت کے بڑھتے خطرے سے دوچار ہیں۔"  انہوں نے کہا کہ انفیکشن کی وجہ سے مریضہ کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے

  ڈاکٹروں کے پینل کے سربراہ ایف ایم صدیقی نے مزید کہا، ''بنگلہ دیش میں تمام آپشنز ختم ہو چکے ہیں، ہم مزید کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘  خیال رہے کہ  بنگلہ دیش جنوری میں ہونے والے عام انتخابات کی تیاری کر رہا ہے اور اگر خالدہ ضیاء کی موت ہو جاتی ہے تو یہ ممکنہ طور پر اپوزیشن کے بڑے پیمانے پراحتجاج کو جنم دے گی۔

Bangladesch Premierminister Khaleda Zia Proteste
خالدہ ضیا کے حامی ان کی رہائی کے لیے مظاہرے کرتے آئے ہیں تاہم حکومت نے ان کے مطالبے پر اب تک کان نہیں دھرےتصویر: bdnews24.com

حسینہ کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے مغربی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ انتخابات خالدہ ضیاء کی ملکی پارلیمانی سیاست میں دوبارہ سر اٹھانے والی بی این پی کی واپسی کا سبب بن سکتے ہیں۔ امریکہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک ایسے ملک میں سیاسی ماحول پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جہاں حسینہ واجد گزشتہ 15 سالوں سے اقتدار میں ہیں اور ان کی عوامی لیگ کی جماعت مقننہ پر حاوی ہے اور  پارلیمان کو عملی طور پر ربڑ سٹیمپ کی طرح چلا رہی ہے۔

خالدہ ضیاء کو  2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور بھاری پابندیوں کے تحت رہائی سے قبل وہ دو سال کے لیے جیل میں بھی رہیں۔ خالدہ ضیا ان الزامات کو سیاسی قرار دے کر مسترد کرتی ہیں۔

ش ر⁄ ع ب (اے ایف پی)

بنگلہ دیش کا انسداد دہشت گردی کا ایک یونٹ ہی ’دہشت گردی میں ملوث‘