1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کے کارٹون بالغوں کی فلموں سے زیادہ موت لیے ہوئے، مطالعاتی رپورٹ

عاطف توقیر17 دسمبر 2014

بالغوں کے لیے بنے والی فلمیں تشدد اور مار دھاڑ سے بھرپور سمجھی جاتی ہیں، تاہم ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے کارٹونز میں کردار فلموں کے مقابلے میں دگنی تعداد میں مرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E6B1
تصویر: imago/United Archives

بچوں کے کارٹونز میں موت کے مناظر بالغوں کے لیے تیار کی جانے والی فلموں میں کرداروں کی موت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک تازہ مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی کارٹون فلمز میں کردار عام فلموں کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ مرتے نظر آتے ہیں۔

ایک برطانوی جریدے میں شائع ہونے والی اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی کارٹون فلموں میں مرکزی کردار بالغوں کے لیے بنائی جانے والی فلموں کے مقابلے میں ڈھائی سو فیصد زیادہ مرتے ہیں جب کہ کارٹون فلموں کے یہ کردار عام فلموں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ قتل ہوتے دکھائی دیتے ہیں، جن میں اکثر کی موت پرتشدد ہوتی ہے۔

اس مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے لیے تیار کی جانے والی کارٹون فلموں میں دو تہائی کردار آخر میں موت کی نیند سوتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ بالغوں کی فلموں میں یہ تعداد صرف نصف بنتی ہے۔

Schneewittchen von Walt Disney
سنو وائٹ فلم کئی دہائیوں قبل بنائی گئی مہشور فلم تھیتصویر: AP

اس تحقیق میں شامل ایان کولمین اور جیمز کِرک برج کے مطابق، ’عام فلموں میں دکھائے جانے والے خوفناک اور پرتشدد مناظر کی پیروی کی بجائے کارٹون فلموں میں معصومیت اور اچھے متبادل پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم بچوں کے لیے بنائی جانے والی ان فلموں میں بھی موت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔‘

اس مطالعاتی جائزے میں سن 1939ء میں بنائی جانے والی کارٹون فلم ’سنو وائٹ‘ سے لے کر سن 2013ء میں منظر عام پر لائی گئی کارٹون فلم ’فروزن‘ تک تمام مشہور کارٹون فلموں کا مطالعہ کیا گیا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کارٹون فلموں میں اہم کرداروں کے والدین عام فلموں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مرتے دکھائے جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اہم کارٹون فلموں ’بیمبی‘، ’پوکاہونٹاس‘ اور ’پیٹر پین‘ میں کرداروں کو مرتے دکھایا گیا ہے، جب کہ ’دا لِٹل مرمیڈ‘ اور ’سلیپنگ بیوٹی‘ میں خنجر سے وار کرنے کے منظر دکھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ’فائنڈنگ نیمو‘ اور ’ٹارزن‘ نامی کارٹون فلموں میں جانوروں کو انسانوں پر حملے کرتے دکھایا گیا ہے۔

اس تحقیق میں ایسی فلموں کو شامل نہیں کیا گیا، جن میں کردار انسانوں کی بجائے مشینیں تھے، کیوں کہ ایسی فلموں میں موت کے معنی مختلف تھے۔

اس تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سن 1937ء میں منظر عام پر آنے والی کارٹون فلم سنووائٹ سے اب تک کے جائزے میں کارٹون فلموں میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان نہیں دیکھا گیا۔ واضح رہے کہ سنو وائٹ فلم میں سوتیلی ماں اور شیطانی ملکہ کا پیچھا برہم بونوں نے کیا تھا اور پھر وہ ایک چٹان سے گر گئی تھی۔