1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
میڈیاایشیا

بھارت میں نوجوان صحافیوں کے لیے راہ آسان نہیں

24 اکتوبر 2023

انسانی حقوق کے گروپوں اور دیگر تنظیموں نے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قانون کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4XwWZ
نیوز کلک کے بانی پربیر پرکائستھ
نیوز کلک ایک ایسا میڈیا ادارہ ہے، جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرستوں کی قیادت والی حکومت پر تنقید کرتا رہا ہےتصویر: Raj K Raj/Hindustan Times/IMAGO

بھارت میں صحافت کی تعلیم کے لیے تقریباً 900 کالج ہیں، جہاں سے ہر سال ہزاروں گریجویٹ فارغ ہو کر آتے ہیں اور میڈیا میں کیریئر شروع کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔

بھارت میں صحافت کا گلا گھونٹنےکے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال؟

تاہم نئے صحافیوں کو جہاں پہلے ہی کم ہوتے ہوئے مواقع اور کم تنخواہوں سے نمٹنا پڑتا ہے، اب انہیں ایسے مسائل کا بھی سامنا ہے جسے بہت سے حلقوں میں پریس پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے حملوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

بھارتی صحافی صدیق کپّن کو ضمانت مل گئی، جلد رہائی کی امید

طلباء اکثر اپنی ڈگریوں کے حصول کے لیے کافی وقت لگاتے ہیں اور نوجوان صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ اپنے کیریئر کا آغاز کر سکیں، موجودہ حالات سے ان کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔

پچھتر برس بعد بھارتی جمہوریت دباؤ میں

 آزادی اظہار کے لیے صحافیوں کی جدوجہد

رواں ماہ کے آغاز میں نیوز کلک کے لیے کام کرنے والے نامہ نگاروں کے گھروں پر چھاپے کے بعد سے پولیس نے اب تک کم از کم 25 افراد سے پوچھ گچھ کی ہے۔ نیوز کلک ایک ایسا میڈیا ادارہ ہے، جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرستوں کی قیادت والی حکومت پر تنقید کرتا رہا ہے۔

بھارت میں پریس کی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک اور کوشش

بھارتی حکام نے ادار ے کے بانی پربیر پرکائستھ اور ان کے دفتر میں انسانی وسائل کے سربراہ امیت چکرورتی کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کر لیا، جو حکومت کا ''انسداد دہشت گردی'' کے لیے قانون ہے۔

نیوز کلک کے بانی پربیر کائستھ
یوز کلک نے حکومت کے الزامات کی تردید کی اور اپنے خلاف کارروائی کو ''بھارت میں آزاد اور خود مختار پریس پر نکیل کسنے کی ایک کھلی کوشش'' کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایاتصویر: Raj K Raj/Hindustan Times/IMAGO

پولیس نے الزام لگایا ہے کہ اس ادارے نے ایسی کہانیاں شائع کرنے کے بدلے میں چین سے فنڈنگ حاصل کی تھی، جس میں بھارت کی پالیسیوں اور منصوبوں پر تنقید کی گئی اور چینی پالیسیوں اور پروگراموں کا دفاع کیا گیا تھا۔

صحافیوں کو غداری جیسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے، بھارتی عدالت

نیوز کلک نے ان الزامات کی تردید کی اور اپنے خلاف کارروائی کو ''بھارت میں آزاد اور خود مختار پریس پر نکیل کسنے کی ایک کھلی کوشش'' کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم مودی حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

بھارت کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ملکی میڈیا کی حالت کے بارے میں بار بار سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم 'فری اسپیچ کلیکٹو' کی ایک اسٹڈی کے مطابق سن 2010 سے اب تک 16 صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں جیل بھیجا جا چکا ہے۔

بھارت میں آزادی صحافت میں گراوٹ

بھارت میں بہت سے نوجوان صحافیوں کے لیے آزادی اظہار کی جدوجہد یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔

حال ہی میں صحافت کی ڈگری حاصل کرنے والے 25 سالہ ڈورین بورا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئی دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن کی ایک معزز پروفیسر کو ان کے سیاسی جھکاؤ کی وجہ سے ایک سال تک انہیں تعلیم دینے سے روک دیا گیا۔

بورا نے بتایا، ''مجھے یاد ہے کہ میں اس سے میں بہت مایوس ہوا تھا، کیونکہ میرے ادارے کا تعلق وزارت اطلاعات ونشریات کے ساتھ ہے اس کے باوجود کھلے عام ایسا کیا گیا۔''

انہوں نے مزید کہا، ''میرے پروفیسر نے ہمیں خبردار کیا کہ بھارت میں صحافت میں 'آزادی' کا تصور ختم ہو رہا ہے اور ہم ایک مشکل وقت میں داخل ہو رہے ہیں۔''

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا چپ ہوتا ہوا

انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا، ''دو برس بعد بھی میں ملک کے دارالحکومت میں ہوں، توقع ہے کہ سب سے کم تنخواہ پر زندگی گزاروں گا۔ آخر جذبہ مجھے کب تک آگے بڑھا سکتا ہے؟''

بورا نے کہا کہ انہوں نے بھارت کے شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک کے دوران مظاہروں اور گرفتاریوں کا مشاہدہ کیا۔ وہ کہتے ہیں، ''اگر لوگ ایمرجنسی کے دوران حکومت پر سوالات اور تنقید کرتے رہے تو ہم آج کے 'جمہوری' بھارت میں ایسا کیوں نہیں کر پا رہے ہیں؟''

جب سیاست پر گفتگو خطرناک ہو جائے

28 سالہ صحافی ورندا شرما کا کہنا ہے کہ انہوں نے نئی دہلی ٹیلی ویژن لمیٹڈ (این ڈی ٹی وی) کو پیش آنے والی مشکلات کا قریب سے مشاہدہ کیا، جو ایک براڈکاسٹر ہے اور جس نے بھارت میں آزاد خبروں کا آغاز کیا تھا۔

حکومتی ایجنسیوں نے اس ادارے پر بھی کئی الزامات کے تحت بار بار چھاپے کی کارروائی کی۔ بعد میں حکومت سے قریبی تعلق رکھنے والے صنعت کار گوتم اڈانی نے اسے بھی خرید لیا۔

شرما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سیاسی معاملات کے صحافی کے طور پر میں واقعی گھبراہٹ محسوس کرنے لگا ہوں۔ اگر پولیس ایسے نامہ نگاروں کو گرفتار کر سکتی ہے جو نیوز کلک کے لیے کام کرتے تھے، تو میں مستقبل میں اپنے لیے بہت حقیقی خطرات کا سامنا دیکھ سکتا ہوں۔''

بھارت کے ایک ممتاز قومی اخبار کے لیے کام کرنے والی 25 سالہ سومیہ رستوگی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا شعبہ سیاسی موضوعات کے بجائے طرز زندگی کے موضوعات پر توجہ دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے میں صحافیوں پر حملوں کی خبروں کو ذاتی سطح پر نہیں دیکھتی۔ ''اس کے باوجود میں مجھے فیلڈ رپورٹنگ کرنے میں دلچسپی ہے، تاہم میرے والدین اکثر مجھے اس کے خلاف مشورہ دیتے ہیں۔''

شرما نے کہا کہ ان مشکلات کے باوجود وہ اب بھی اپنے صحافتی کام کو جاری رکھنے کی خواہشمند ہیں کیونکہ یہ ''ایک بہت بڑی تصویر میں اپنا چھوٹا حصہ فراہم کرتی ہے۔''

وہ کہتی ہیں، ''یہ ذمہ داری کا احساس ہے جو مجھے جاری رکھے ہوئے ہے، حالانکہ اقتدار میں رہنے والے اس نظام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے  ہیں۔''

آزاد خبر رساں ادارے بھی اکثر اپنے صحافیوں کو معقول اجرت ادا کرنے کے لیے خاطرخواہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

بورا کا کہنا ہے کہ فنڈنگ کی کمی بھارتی میڈیا کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم سی میں ایک سینیئر طالب علم نے ایک بار کہا تھا کہ ''صحافیوں کے طور پر ہمارا فرض ان خبروں کو کور کرنا ہے، جنہیں اشتہارات کی دنیا نظر انداز کر دیتی ہے۔''

 حکومت کی طرف سے نیوز پورٹلز کو نشانہ بنانا اور ان کی فنڈنگ کو ''دہشت گردی'' کا لیبل لگانا بھی بھارت میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ معلومات کی ترسیل کو کم کرنے کا کام کرتا ہے۔

شوبھانگی ڈیرہگوین/ ص ز/ ج ا

صحافیوں پر ہونے والے سائبر حملوں کی داستان