1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: چپڑاسی کی نوکری، پی ایچ ڈی امیدوار

جاوید اختر، نئی دہلی
16 جنوری 2018

بھارت کے وسطی صوبہ مدھیہ پردیش کی ایک ضلعی عدالت میں چپڑاسی(کلرک) کے پوسٹ کے لیے جن لوگوں نے درخواستیں دی ہیں ان میں انجینیئر ، ایم بی اے، حتٰی کہ ڈاکٹر یٹ کی ڈگری رکھنے والے بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/2qvLd
Symbolbild Armut in Indien
تصویر: picture-alliance/dpa

حالانکہ ضلعی عدالت کی مذکورہ پوسٹ کے لیے تعلیم کی شرط محض آٹھویں پاس رکھی گئی تھی۔ یہ صورت حال ایک اعشاریہ تین ارب آبادی والے ملک بھارت میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی سنگینی کو بیان کرتی ہے، جہاں تقریباً 65 فیصد آبادی کی عمر 35 برس سے کم ہے اور 2020ء تک لوگوں کی اوسط عمر 29 برس ہوجائے گی۔ لیکن ملک کے تیس فیصد سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں۔
مدھیہ پردیش کے ضلع گوالیار کی عدالت میں چپڑاسی کی ستاون نوکریوں کے لیے جب انتظامیہ نے اشتہاردیا تو انہیں یہ قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اہل امیدواروں کا انتخاب کرنے کے لیے انہیں 60 ہزار سے زائد درخواستوں کی چھان بین کرنا پڑے گی۔ حکام اس لیے بھی پریشان ہیں کہ محض ساڑھے سات ہزار روپے ماہانہ مشاہرہ والی جس پوسٹ کے لیے درکار  تعلیمی قابلیت صرف آٹھویں کلاس پاس ہے، اس کے لیے گریجویٹس، انجینیئرز، ایم بی اے(ماسٹرآف بزنس ایڈمنسٹریشن) اور حتٰی کہ پی ایچ ڈی(ڈاکٹر آف فلاسفی) جیسی اعلٰی ترین ڈگریاں رکھنے والوں میں سے کس کا انتخاب کیا جائے۔ درخواست دہندگاہ میں 80 فیصد بارہویں، گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پاس ہیں۔

روزانہ 250 امیدواروں کا انٹرویو
چپڑاسی کی ان پوسٹوں پر تقرری کے لیے درخواستوں کی جانچ کے بعد امیدواروں کا انٹرویو لیا جائے گا۔ جج صاحبان امیدواروں کا انٹرویو لیں گے۔ اس کے لیے 14 ججوں کی ایک کمیٹی بنادی گئی ہے جو 28جنوری سے امیدواروں کا انٹرویو شروع کرے گی اور پورا عمل 18فروری تک مکمل کیا جائے گا۔ ہر جج کو روزانہ ڈھائی سو سے زائد امیدواروں کا انٹرویو کرنا ہوگا۔ انتظامیہ یہ سوچ کر پریشان ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یکجا ہونے والے بیروزگاروں کے ہجوم کو قابو میں کیسے رکھا جائے گا؟


بے روزگاری ایک بڑا قومی مسئلہ

بھارت میں بے روزگاری ایک بڑا قومی مسئلہ ہے اوربھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست مدھیہ پردیش بھی اس سے مستشٰنی نہیں ہے۔ صوبے میں بیروزگاری سے پریشان تعلیم یافتہ نوجوانوں نے گزشتہ دنوں’بے روزگار سینا‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔ ’بے روزگار سینا‘ کا کہنا ہے کہ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق مدھیہ پردیش کے ہر چھٹے گھر میں ایک نوجوان بیروزگار اور ہر ساتویں گھر میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگار بیٹھا ہے، لیکن حقیقی صورت حال اس سے بہت زیادہ خراب ہے۔ صوبے میں 21 سے 30 برس کی درمیانی عمر کے تقریباً ایک کروڑ اکتالیس لاکھ نوجوان بے روزگارہیں۔گزشتہ دو برس میں بیروزگاروں کی تعداد میں 53 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صوبہ میں 48 حکومتی روزگار دفاتر ہیں جن کے ذریعہ 2015ء میں مجموعی طورپر صرف 334 افراد کو روزگار فراہم ہوسکا تھا، حالانکہ اس صوبے میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ سرکاری پوسٹ خالی پڑی ہیں۔

Symbolbild Armut in Indien
اتر پردیش کے امروہا قصبہ میں خاکروب (صفائی ملازم) کے لیے درخواست دینے والوں میں بی ٹیک ڈگری رکھنے والے شامل تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo

چپڑاسی کی 368 پوسٹوں کے لیے 23 لاکھ درخواستیں
بیروزگاری کی اس سنگین صورت حال کا ہی نتیجہ ہے کہ جب بھی چند سرکاری پوسٹوں کے لیے اشتہار شائع ہوتا ہے تو اس کے جواب میں ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ اس سے امیدواروں کا فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن درخواست فیس کے نام پر حکومت کی تجوری میں لاکھوں روپے ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ 2016ء میں مہاراشٹر میں جب قلی(حمال) کی پانچ پوسٹوں کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں تو تقریباً ڈھائی ہزار درخواستیں موصول ہوئیں جن میں کوئی ایک ہزار گریجویٹس اور دو سو سے زائد پوسٹ گریجویٹس بھی شامل تھے حالانکہ اس پوسٹ کے لیے امیدوار کا صرف چوتھا درجہ پاس ہونا ضروری تھا۔ اسی طرح اتر پردیش میں چپڑاسی کی 368 پوسٹوں کے لیے 23 لاکھ سے زائد درخواستیں آئی تھیں جن میں 255 پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ تھے۔ اتر پردیش کے امروہا قصبہ میں خاکروب (صفائی ملازم) کے لیے درخواست دینے والوں میں بی ٹیک ڈگری رکھنے والے شامل تھے حالانکہ اس کے لیے کسی تعلیمی صلاحیت کی ضرورت نہیں تھی۔ مدھیہ پردیش کے پڑوسی صوبہ چھتیس گڑھ میں بھی چپڑاسی کی 330پوسٹوں کے لیے درخواست دینے والے پچھتر ہزار سے زائد امیدواروں میں کئی سائنس اور انجینئرنگ کے گریجویٹس شامل تھے۔

بھارتیوں کو درپیش انگریزی کا مسئلہ

بڑھتی نوجوان آبادی تعمیر وترقی کی بجائے تباہی ثابت ہو سکتی ہے
ماہرین کہتے ہیں بھارت میں تعلیم یافتہ افراد کی بیروزگاری کی بڑی وجہ ان کا ہنر مند(اسکلڈ) نہ ہونا ہے۔ مارکیٹ میں اعلٰی تعلیمی ڈگریاں بے معنی ثابت ہو رہی ہیں۔ بھارت میں ہنر مند افراد کی تعداد صرف دو فیصد ہے جب کہ چین میں یہ تعداد 47 فیصد اور جنوبی کوریا میں 96 فیصد ہے۔ حکومتی منصوبہ بندی کے ادار ہ نیتی آیوگ کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے کیونکہ اعلٰی تعلیم حاصل کرلینے کے بعدلوگ مخصوص تنخواہ کی سطح سے نیچے کام کرنا نہیں چاہتے۔ اقتصاد ی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ بھارت میں 2050ء تک کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد ایک ارب دس کروڑ ہوجائے گی اس لیے اگلے پندرہ برس کے دوران ہر سال سولہ ملین ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ’نوجوان آبادی‘ سے جس ’تعمیر و ترقی‘کی توقع کی جارہی ہے وہ تباہی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔