1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی بزنس وومن اپنے آبائی گاؤں میں تبدیلی کے لیے پرعزم

18 اپریل 2013

بزنس ایڈ منسٹریشن کے شعبے میں ماسٹرز ڈگری رکھنے والی چھاوی راجوت بھارت کی صحرائی ریاست راجستھان میں واقع اپنے آبائی گاؤں ’سودا‘ کی پسماندگی دور کرنے اور اسے 21 ویں صدی میں لے جانے کے لیے انتہائی پرعزم ہیں۔

https://p.dw.com/p/18IkR
zugeliefert von: DW/ P. Esselborn
تصویر: DW/ J. Sehgal

تین سال قبل سودا کے رہائشیوں کے پرزور اصرار پر 33 سالہ راجوت نے سرپنچ یعنی گاؤں کی پنچایت کی سربراہ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ دس ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں زیادہ تر لوگوں کا معاش زراعت یا محنت مزدوری سے وابستہ ہے۔ بھارت میں ہونے والی مجموعی اقتصادی ترقی کے آثار اس گاؤں میں کہیں نظر نہیں آتے۔

سرپنچ بننے سے پہلے راجوت بھارت کی ایک بڑی ٹیلی کوم کمپنی میں ملازمت کرتی تھیں۔ اپنے گاؤں کے لوگوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار اس خاتون نے تین سال پہلے اپنی ملازمت چھوڑ کر سرپنچ بننا پسند کیا اور تب سےاب تک وہ اپنے آبائی گاؤں میں مسلسل بہتری کے لیے سرگرم ہیں۔ راجوت نے گاؤں میں پینے کے صاف پانی، شمسی توانائی، پکی سڑکوں، بیت الخلا کی سہولتوں کی فراہمی اور دیگر بنیادی ضروریات کی دستیابی کے لیے کافی کام کیا ہے۔

Holi Frühlingsfest Rajasthan
راجستھان میں خواتین رکس کرتے ہوئےتصویر: AFP/Getty Images

سودا گاؤں پسماندگی کا دوسرا نام ہے۔ راجستھان کے اس دور دراز گاؤں میں خواندگی کی شرح 50 فیصد سے بھی کم ہے اور وہاں اکثر قحط کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ مٹی کے بنے گھروں میں بجلی کی فراہمی بھی اکثر معطل رہتی ہے۔

تیس سالہ کسان جے سنگھ کا دعویٰ ہے کہ راجوت کے دور میں گاؤں نے جتنی ترقی کی ہے اتنی کسی دوسرے سرپنچ کے دور میں نہیں ہوئی۔ راجوت نے علاقے میں صحت اور صفائی کے حوالے سے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ انہی کی کوششوں کی وجہ سے سودا میں اب ایک بینک کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔

راجوت نے ایک کارپوریٹ سپانسر کی مدد سے ایک کمپیوٹر سینٹر بھی قائم کیا ہے۔ سینٹر کے ایک ٹیچر محمد صدیق نے کہا، ’ یہ نوجوانوں کے لیے بہت بڑا موقع ہے کہ وہ کمپیوٹر استعمال کرنا سیکھ لیں۔ اس سے پہلے یہاں پر ایسا کوئی ادارہ کبھی تھا ہی نہیں۔‘

ایک سرکاری عہدیدار نے چھاوی راجوت کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سودا کی یہ سرپنچ ہر کام تیز رفتاری سے مکمل کرنا چاہتی ہیں۔

اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خواہش رکھنے والوں کے لیے راجوت ایک مسلسل پریشانی کی علامت بن چکی ہیں۔ ایک مقامی خیراتی ٹرسٹ کے اہلکار بھاسکر پتشالی نے کہا، ’راجوت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک صاف ستھری سیاست دان ہیں جو کوئی بھی کام نکلوانے کے لیے کسی کو کبھی بھی رشوت کی پیشکش نہیں کرتیں۔‘

چھاوی راجوت کے دادا بھی، جن کی عمر اب 90 برس ہے، اس گاؤں میں 20 سال قبل تک طویل عرصے کے لیے بطور سرپنچ خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سودا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گاؤں میں راجوت کے بریگیڈیئر دادا کے بعد سے کوئی ترقی نہیں ہوئی تھی اور اسی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ اس خاندان کا کوئی اور فرد سرپنچ کی ذمہ داریاں سنبھال لے۔ راجوت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہ ذمہ داریاں قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

چھاوی راجوت تبدیلی کی رفتار سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’بھارت کو اپنی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر ہم لوگوں کو اسکول، بجلی، پانی اور نوکریاں نہیں دے سکیں گے۔‘

حال ہی میں ہونے والی اقوام متحدہ کی غربت کے خلاف عالمی کانفرنس میں چھاوی راجوت نے بھارت کی نمائندگی کی تھی۔ راجوت کی کہانی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بدعنوانی کے شکار بھارت میں نچلی سطح کی قیادت میں ملک میں تبدیلی لانے کی صلاحیت موجود ہے۔

zh/mm(AFP)