1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوپال گیس سانحہ، برسوں بعد بھی زخم تازہ

2 دسمبر 2009

بھارتی ریاست مدہیہ پردیش کے شہر بھوپال میں آج اس سانحے کو ہوئے پچیس برس بیت گئے، جس میں ہزاروں افراد محض چند گھنٹوں میں ہی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔

https://p.dw.com/p/KpAB
فضا میں آکسیجن ختم ہونے کے باعث زندہ مخلوقات بڑی تعداد میں ہلاک ہوگئیںتصویر: AP

کیڑے مار ادویات بنانے والی ایک فیکٹری سے پچیس برس قبل 3 دسمبر کواچانک حادثاتی طور پر خارج ہونے والی زہریلی گیس نے بھوپال کے شہریوں کو موت سے دوچار کردیا تھا۔

Bhopal
حادثے کا شکار ہونے والا پلانٹتصویر: dpa

تین دسمبر کے آتے ہی جہاں بھوپال کے بسنے والے برسوں پہلے ہوئے جان لیوا حادثے کو یاد کرنے لگتے ہیں، وہیں اس حوالے سے اور بھی کئی تلخ پہلو زیر بحث آجاتے ہیں۔ جیساکہ اس حادثے میں بچ جانے والوں کی مالی معاونت۔ اس علاقے میں بسنے والوں کے لئے بہتر ماحول اور پانی کی فراہمی، جِلدی اور دیگر بیماریوں کی روک تھام۔ ان تمام پہلوؤں پر برس ہا برس سے بحث اور تحقیق تو ہوتی آرہی ہے مگر درحقیقت کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔

دنیا کے اس سب سے شدید صنعتی حادثے کی جگہ پر اب پچیس سال گزرنے کے بعد بھی زیرزمین پانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔ ایک برطانوی تحقیقاتی ادارے بی ایم اے کے مطابق یونین کاربائیڈ نامی کمپنی کے اس کارخانے میں حادثے کے وقت تک قریباً 350 ٹن زہریلا مادہ اس پلانٹ کے گردونواح میں دبایا جا چکا تھا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اچانک ہونے والے حادثے سے بھی زیادہ سنگین نتائج کا موجب بن رہا ہے۔

واضح رہے کہ دو اور تین دسمبر 1984ء کی درمیانی شب بھوپال میں قائم ایک امریکی فیکڑی کے کیمیکل بنانے والے پلانٹ سے بہت بھاری مقدار میں زہریلی گیس کا اخراج شروع ہوگیا، جس سے فضا میں موجود آکسیجن ختم ہونا شروع ہو گئی اور لوگوں کے پھیپھڑوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق حادثے کے بعد تین دن کے اندر اندر ہلاک ہوجانے والے لوگوں کی تعداد 8 سے 10 ہزار تھی۔ اس کے بعد 1994ء تک اِس حادثے کے باعث مرنے والوں کی تعداد 25 ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔

Frauen und Männer in Bhopa Indien
پچیس سال گزرنے کے بعد بھی زیرزمین پانی استعمال کے قابل نہیں ہےتصویر: AP

بھوپال گیس ٹریجیڈی کے نام سے یاد کئے جانے والے اس سانحے کے حوالے سے دسمبر کے پہلے ہفتے میں یادگاری تقریبات منائی جاتی ہیں اور ساتھ ہی متاثرین کی نمائندگی کرنے والی تنظمیں حکومتی اقدامات پر تنقید بھی کرتی ہیں۔

اسی حوالے سے ICJB نامی ایک تنظیم کا کہنا ہے :’’ 1989 میں بالائے کورٹ سیٹلمنٹ کے تحت یہ طے پایا تھا کہ یونین کاربائیڈ، متاثرین کو 470 ملین ڈالرز ادا کرے گی۔ لیکن اس کے بعد سے ایک لاکھ متاثرہ لوگوں کو صرف 200 روپے ماہانہ کے حساب سے صرف ایک ادائیگی کی گئی ہے۔‘‘

لوگوں کو کئی مرتبہ اپنے طبی ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں، تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ واقعی وہ یونین کاربائیڈ حادثےسے متاثر ہوئے ہیں۔

بھارتی حکومت اس حوالے سے ایسی کوئی سخت کارروائی نہیں کرنا چاہتی، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کوئی جارحانہ پیغام پہنچے۔

اِسی دوران مدہیہ پردیش حکومت حادثے کے مقام پر ایک یادگار تعمیر کرنے کے لئے 125 کروڑ روپے مختص کر چکی ہے کہ شاید اس تعمیر سے ہی لوگوں کے غموں کا کچھ ’’مداوا‘‘ ہوسکے۔

رپورٹ : عبدالرؤف انجم

ادارت : امجد علی