1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیت اللہ محسود اور پاکستانی حکومت کے درمیان مصالحتی کوششیں

28 جولائی 2009

وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے بعد کئی حلقے حکومت اورطالبان کے مابین مصالحت کے لئے متحرک ہوگئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/IyxW
بیت اللہ محسود کی ایک فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

ایک طرف سیکیورٹی فورسز وزیرستان میں طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے ٹھکانوں کونشانہ بنارہی ہیں جبکہ دوسری جانب امریکی جاسوسی طیاروں کے میزائل حملے بھی بدستورجاری ہیں ان حالات کے نتیجے میں وزیرستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی بھی کرچکے ہیں وزیرستان میں کئی گروپ بھی بیت اللہ محسود کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ فاٹا کے سابق سیکریٹری بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمودشاہ کہتے ہیں کہ حکومت کوان گروپوں کے مابین اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیت اللہ محسود کے خلاف مختصر اورجامع آپریشن کرناچاہیے۔ انکا کہنا ہے کہ کئی قبائل کے مابین اختلافات ہیں اور حکومت کو ان اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اگرچہ سیکیورٹی فورسز نے بیت اللہ محسود کے ساتھ مذاکرات یا کسی امن معاہدے کے امکان کومسترد کیا ہے تاہم بعض سیاسی مذہبی اور قبائلی مشیر اس مقصد کے لئے کوشاں ہیں۔ ان حلقوں کادعویٰ ہے کہ بیت اللہ محسود پر بھی اپنے ساتھیوں کی جانب سے حکومت کے ساتھ مصالحت کے لئے دباؤ ہے۔ بعض قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ بیت اللہ محسود کا پیغام حکومت جبکہ حکومتی شرائط بیت اللہ محسود تک پہنچادی گئی ہیں۔

Pakistan Sufi Muhammad
کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کو گرفتار کیا جا چکا ہےتصویر: AP

اطلاعات کے مطابق اگرمذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو بیت اللہ محسود سرکاری تنصبیات اوراداروں پرحملے نہیں کریں گے جبکہ حکومت بھی آپریشن کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔ حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین ایسے وقت میں مذاکرات کے لئے کوششیں ہورہی ہیں، جب سیکیورٹی فورسز نے وزیرستان میں بیت اللہ محسود کی سپلائی لائن کاٹ دی ہے۔ ان کے علاقے کی جانب جانے والے چار راستوں پر کنٹرول حاصل کرلیا گیا ہے۔ ان کے خلاف زمینی آپریشن کی بجائے ان کے ٹھکانوں کوفضائی حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح وزیرستان میں کچھ عرصہ قبل تین گروپوں نے اتحاد کرتے ہوئے بیت اللہ محسود کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا جبکہ قبائلی علاقوں سمیت صوبہ سرحد کے جنوبی اضلاع اورمالاکنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن کی وجہ سے تحریک طالبان کی صلاحیت کوکافی حدتک کمزور کردیاگیاہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیت اللہ محسود کے ساتھی ان کو پاکستان میں سرگرمیاں کم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں مذاکرات کے ذریعے طالبان مزید وقت لیں گے اور ماضی کی طرح مزید تیاری کرکے سامنے آسکتے ہیں۔ کئی مبصرین ایسے وقت میں ان کے ساتھ مذاکرات اور انہیں رعائت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کرنے والے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولاناصوفی محمد اور طالبان کے ہمدرد شاہ عبدالعزیز کو حراست میں لیاجا چکاہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ اورپاکستان نے بیت اللہ محسود کے سرکی قیمت مقرر کر رکھی ہے جبکہ بعض ان پر سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی عائد کررہے ہیں مصالحت کی یہ کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی ہینڈ افغانستان میں اعتدال پسند طالبان کوسیاسی دھارے میں شامل کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں لیکن افغان طالبان نے پہلے بھی افغان حکومت امریکہ اور برطانیہ کی یہ پشکش مسترد کر دی تھی۔

رپورٹ : فریداللہ خان، پشاور

ادارت : عاطف توقیر