1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے نظیر بھٹو کی سالگرہ اور پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم

21 جون 2018

پاکستان کی مقتولہ سیاستدان اور سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 65 ویں سالگرہ جمعرات اکیس جون کو منائی گئی لیکن کئی مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی نے آئندہ الیکشن کے لیے اپنی بھرپور مہم کے آغاز کا ایک اچھا موقع ضائع کر دیا۔

https://p.dw.com/p/302OP
تصویر: dapd

ستّر کی دہائی کے اواخر میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد بےنظیر بھٹو نے خود کو نہ صرف اپنے والد کی صحیح جانشین ثابت کر دیا تھا بلکہ انہوں نے اس دور کے فوجی آمر اور اس کے ساتھیوں کا بڑی ہمت سے مقابلہ بھی کیا تھا۔

بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ 1988 میں اور دوسری مرتبہ 1993 میں پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بھی تھیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس بے نظیر بھٹو کی قیادت میں دونوں وفاقی حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی گئی تھیں۔ ان الزامات کے باوجود عالمی سطح پر بے نظیر بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ میں کوئی فرق نہیں آیا تھا بلکہ انہوں نے اپنی سیاست سے پاکستان کے اب تک کے آخری فوجی حکمران پرویز مشرف کو اس بات پر مجبور بھی کر دیا تھا کہ وہ ملک میں ’کنٹرولڈ‘ کے بجائے حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے اقدامات  کریں۔

Asif Ali Zardari
بےنظیر بھٹو کے شوہر اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداریتصویر: Getty Images

متعدد تجزیہ نگاروں کی رائے میں بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی صرف بیٹی نہیں بلکہ بہترین سیاسی شاگرد بھی تھیں۔ انہوں نے اپنے والد سے جو کچھ سیکھا تھا، عملی سیاست میں اس پر مکمل عمل بھی کیا مگر کرپشن کے الزامات نے پاکستان میں ان کی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان بھی پہنچایا تھا۔

اس بارے میں سینئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ اپنے شوہر آصف علی زرداری کو پاکستانی سیاست میں لانا بےنظیر بھٹو کی ایک ’بڑی سیاسی غلطی‘ تھی۔ فاروقی کے مطابق، ’’جس دن سے آصف زرداری کی وجہ سے ہی بے نظیر بھٹو کی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگے، اسی دن سے بے نظیر کو بھی سیاسی نقصان پہنچا اور ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی۔‘‘

کے آر فاروقی نے ڈی ڈبلیو کے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی کی کمان اور پھر ملکی صدر بن کر اقتدار سنبھالا، تو ان کے قابل اعتماد افراد میں پارٹی کے پرانے وفادار کارکنوں اور رہنماؤں کے بجائے قریبی رشتہ دار، دوست اور کاروباری شراکت دار کہیں زیادہ تھے۔

مگر تمام تر کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود کراچی کے علاقے لیاری اور وہاں رہنے والے غریب اور مزدوری پیشہ افراد کی اکثریت آج بھی بے نظیر بھٹو اور پارٹی کے ’جیالوں‘ میں شمار ہوتی ہے اور اب ان کی توقعات بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول زرداری سے جڑی ہوئی ہیں۔

کئی مبصرین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے لیاری کو کچھ نہیں دیا۔ کراچی کا یہ علاقہ آج بھی پینے کے صاف پانی، صحت، تعلیم اور روزگار کی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہے۔ اب تک ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں وہاں گینگ وار کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، منشیات فروشی عام ہے لیکن پھر بھی اگر کسی مقامی شہری سے پوچھا جائے کہ وہ ووٹ کس کو دے گا، تو جواب ہوتا ہے: ’ووٹ بے نظیر کا‘۔

تجزیہ کار امین حسین کہتے ہیں کہ لیاری کے ووٹر پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے آئے ہیں اور نہ جانے کب تک ہوتے رہیں گے؟ لیکن پیپلز پارٹی لیاری کے عوام کے ہاتھوں کبھی بلیک میل نہیں ہوتی۔ بلاول زرداری لاڑکانہ اور بنوں کے علاوہ لیاری کی نشست سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ مگر انہوں نے یہ اعلان بھی ابھی سے کر دیا ہے کہ وہ الیکشن جیت کر لیاری سے پارلیمانی نشست خالی کر دیں گے اور اس نشست پر پھر ان کی بہن آصفہ زرداری ضمنی الیکشن لڑیں گی۔ اس کے باوجود جمعرات اکیس جون کو لیاری میں بے نظیر بھٹو کی 65 ویں سالگرہ کے موقع پر جشن کا سا جو سماں دیکھا گیا، وہ اپنے طور پر جیسے یہ اشارہ دے رہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی پیپلز پارٹی ہی کو ملے گی۔ لیکن لیاری پاکستان میں تو ہے مگر وہ پورا پاکستان نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید