1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترغیب کے بغیر مہاجرین جرمن معاشرے میں ضم نہیں ہو سکتے‘

عاطف بلوچ30 مارچ 2016

جرمن حکومت کے اس متنازعہ منصوبے پر تنقید کی جا رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے مہاجرین کو ملک سے بیدخل کر دینا چاہیے، جو جرمن زبان سیکھنے یا معاشرے میں ضم ہونے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IMJ0
Griechenland Flüchtlinge Fähre Nacht
تصویر: Getty Images/A. Koerner

جرمن حکومت کے اس متنازعہ منصوبے پر تنقید کی جا رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے مہاجرین کو ملک سے بیدخل کر دینا چاہیے، جو جرمن زبان سیکھنے یا معاشرے میں ضم ہونے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

نیا قانون: جرمن سیکھو، معاشرے میں ضم ہو جاؤ، ورنہ واپس جاؤ

جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی

جرمنی میں ترک کمیونٹی کے سربراہ گوکائی صوفو آؤلو نے بدھ کے دن اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جب تک ترغیب نہیں دی جائے گی تب تک مہاجرین اور تارکین وطن کا جرمن معاشرے میں ضم ہونا مشکل رہے گا۔ انہوں نے روزنامے ’برلنر سائٹنگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جرمنی کو یہ سمجھنا ہو گا کہ انضمام کی پالیسی اسی وقت کامیاب ہو گی، جب لوگوں کو اس حوالے سے تقویت ملے گی۔‘‘

گزشتہ ہفتے ہی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا تھا کہ ان کی وزارت ایک ایسے نئے قانون پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت جرمن زبان نہ سیکھنے اور سماجی انضمام نہ کرنے والے مہاجرین جرمنی میں نہیں رہ سکیں گے۔

تیس مارچ بروز بدھ کو شائع ہونے والے انٹرویو میں گوکائی کا کہنا تھا کہ جرمن حکومت کو ان تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے خصوصی کورسز اور پروگرام متعارف کرانا پڑیں گے تاکہ ان میں یہ احساس پیدا ہو کہ حکومت ان کے ساتھ ہے اور انہیں جرمن معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش میں ہے۔

جرمن وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ برلن حکومت کو توقع ہے کہ ملک میں نئے آنے والے تارکین وطن رہائش، سماجی سہولیات اور زبان سکھانے کی کلاسوں کے بدلے میں خود بھی جرمن معاشرے میں ضم ہونے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو طویل عرصے تک جرمنی میں قیام کی اجازت نہیں دی جائے گی، جو جرمن معاشرے میں گھلنے ملنے سے اجتناب کریں گے۔

گوکائی صوفو آؤلو نے تھوماس ڈے میزئر کے اس بیان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ جرمن حکومت کو اپنی انضمام کی پالیسی میں ایسی ترامیم کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف جرمنی کے وزیر برائے انضمام آئدان اوزوس نے بھی اس مجوزہ منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جرمنی کے موجودہ قوانین کے تحت ایسے تارکین وطن پر پابندیاں عائد کرنے کی شق موجود ہے، جو معاشرتی سطح پر انضمام میں دانستہ طور پر حصہ نہیں لیں گے۔

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

درجنوں پاکستانی تارکین وطن یونان سے ترکی ملک بدر

نیا قانونی پیکیج، مہاجرین کو اپنے اہل خانہ بلانا آسان نہ ہو گا

اُوزوس نے البتہ کہا ہے کہ نئے قوانین کے تحت ان مہاجرین اور تارکین وطن کو روزگار کی منڈی تک رسائی دینے کے حوالے سے اقدامات کرنا چاہییں۔ گزشتہ برس جرمنی میں 1.1 ملین افراد نے پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو مہاجر دوست پالیسی اختیار کرنے کے باعث داخلی سطح پر بھی تنقید کا سامنا بھی ہے۔ کچھ ناقدین کے مطابق ان کے وزیر داخلہ کی طرف سے اس طرح کے قانون پر کام کرنے کا فیصلہ غالباﹰ ووٹرز کو متوجہ کرنے کا حربہ بھی ہو سکتا ہے۔