1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں مظاہروں کے محرکات

3 جون 2013

ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مظاہروں کی شدت میں اضافے اور ان میں شامل ہوتا ہوا تشدد کا عنصر یہ ظاہر کررہا ہے کہ یہ ایردوآن کے استبدادی طرز حکومت کے خلاف وہ عوامی ردعمل ہے جو ایک عرصے سے دبا ہوا تھا۔

https://p.dw.com/p/18iuE
Protesters carry the Turkish flag and shout anti-government slogans during a demonstration at Gezi Park near Taksim Square in central Istanbul June 3, 2013. Turkish Prime Minister Tayyip Erdogan called for calm on Monday, after a weekend of fierce anti-government protests, urging people not to be provoked by demonstrations he said had been organised by "extremist elements". Tens of thousands of people took to the streets in Turkey's biggest cities over the weekend and clashed with riot police firing tear gas, leaving hundreds of people injured. REUTERS/Stoyan Nenov (TURKEY - Tags: CIVIL UNREST POLITICS)
Türkei Proteste Gezi Park Taksim Platz Istanbulتصویر: Reuters

رجب طیب ایردوآن گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے ترکی کے وزیر اعظم چلے آ رہے ہیں۔ گذشتہ تین انتخابات کے دوران اُن کی AK یا جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھا گیا۔ ان کے دور حکومت میں ترکی میں جہاں غیر معمولی سیاسی استحکام دیکھنے میں آیا ہے وہاں اقتصادی طور پر بھی مستحکم ہوا ہے ۔

وزیر اعظم کے طور پر اپنی آخری مدت مکمل ہونے سے پہلے ایردوآن ترکی پر اپنی چھاپ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ وہ ترکی کی خارجہ پالیسی کو نئے انداز میں استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ترک دستور کو ازسر نو تشکیل دے رہے ہیں۔ ان کی حکومت تاریخی و قدیمی شہر استنبول کے خدوخال بھی بدل دینا چاہتی ہے۔

Türkei Proteste Regierung Ankara
گذشتہ دہائیوں کے دوران ہونے والے اب تک کے سب سے زیادہ پرتشدد مظاہرے زور پکڑتے جارہے ہیںتصویر: Reuters

دوسری طرف ایردوآن کے کچھ سابق حامیوں سمیت ناقدین کی اکثریت ان پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ وہ تیزی سے آمرانہ روش اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ وہ میڈیا کی زبان بندی کررہے ہیں، ریاستی اداروں پر ان کی AK پارٹی کا کنٹرول بڑھتا جارہا ہے، ترکی کے سیکولر آئین کی جگہ ان کی سیاست کا محور مذہب بنتا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایردوآن ترکی کے آئندہ صدر بنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ آئین میں ترمیم کرا رہے ہیں۔

استنبول شہر کو نیا روپ دینے کے سلسلے میں مرکزی تقسیم اسکوائر کے پہلو میں واقع گیزی پارک ميں درختوں کی کٹائی کا کام گزشتہ ہفتے کے دوران شروع کیا گیا تھا۔ ایردوآن حکومت اسی علاقے میں عثمانی سلطنت دور کی ایک بیرک کو تعمیر کرنے کو پلان کیے ہوئے ہے۔ ایردوان تقسیم چوک میں ایک مسجد کی تعمیر کی بھی متمنی ہے۔ اس حکومتی پلان کے خلاف جمعے کے روز سے مظاہروں کا آغاز ہوا۔

بعض مظاہرین کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریات کی حامل ایردوآن حکومت ملک میں ’اسلامائزیشن‘ کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔

ترکی کی تاریخ میں گذشتہ دہائیوں کے دوران ہونے والے اب تک کے سب سے زیادہ پرتشدد مظاہرے زور پکڑتے جارہے ہیں۔ استنبول کے مظاہرین میں شریک طوبیٰ بِتقتاش کا کہنا تھا،’’ کیا یہ فیصلہ وزیر اعظم نے کرنا ہے کہ میں سکارف پہنوں یا نہیں؟‘‘ مظاہرین پر برسائی جانے والی پانی کی تیز دھار سے بچنے کے لیے تیراکی کے چشمے اور آنسو گیس کے اثرات سے بچنے کے لیے گیس ماسک پہننے سے قبل بِتقتاش نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت اپنی مرضی و منشا کے تحت عمل کر رہی ہے اور یہاں مخالفین کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

Türkei Istanbul Ankara Demonstrationen Mai Juni 2013
وزیراعظم کے دفتر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی تیز دھار کا استعمال کیا گیاتصویر: picture-alliance/AP Photo

رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے باوجود تقسیم چوک کی تعمیر نو کا کام جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان مظاہرین کا پارک میں تعمیر نو کے کام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ خالصتاﹰ حکومت کی مخالفت میں جمع ہوئے ہیں۔

یہ حکومت مخالف مظاہرے ترکی میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب بھی جاری رہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے وزیراعظم رجب طیب ایردوآن کے دفتر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی تیز دھار کا استعمال کیا۔

دوسری جانب استنبول کے تقسیم اسکوائر پر بھی احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یورپی یونین نے مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال پر تنقید کی ہے۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے ترکی میں پرتشدد واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور فریقین سے کہا ہے کہ وہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

zb/ah(Reuters)