1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں کرد سیاستدان انقرہ حکومت سے ناخوش

21 اپریل 2011

ترکی میں کرد نسل کے بعض سیاستدانوں پر رواں سال کے پارلیمانی انتخابات کے دروازے بند کیے جانے کے سبب پیدا شدہ سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/111az
تصویر: AP

اس بحران کے خاتمے کے لیے ترک پارلیمان کے کرد نسل کے ایک رکن صلاح الدین دیمیرتاس کی ملکی صدر عبد اللہ گل سے ایک ملاقات بھی طے تھی مگر وہ بطور احتجاج صدر سے نہیں ملے۔ انقرہ کے صدارتی دفتر میں اس ملاقات سے قبل کرد اکثریتی آبادی والے ترک شہر دیار باقر میں مظاہرین پر پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ایک شخص کی ہلاکت کی اطلاع عام ہوگئی تھی۔ یہ واقعہ اس شہر کے بسمِل نامی علاقے میں پیش آیا۔

ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ریاست ترکی میں خطے کی دیگر ریاستوں کی مانند کرد نسل کی اقلیت آباد ہے۔ صلاح الدین دیمیرتاس ترکی میں کردوں کی نمائندہ جماعت، پارٹی برائے امن اور جمہوریت کے شریک چیئرمین ہیں۔

صدر گل سے اپنی ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’پولیس کی فائرنگ سے بِسمل میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔ اس واقعے کی وجہ سے میں صدارتی محل نہیں جاؤں گا اور یہیں سے صدر گل سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کروں گا۔‘‘ رواں ہفتے پیر کے دن انتخابات سے متعلق ترکی کے اعلیٰ ترین ملکی ادارے سپریم بورڈ آف الیکشن نے جون کے آئندہ پارلیمانی انتخابات کے لیے درجن بھر سیاسی امیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا تھا۔ ان میں سے اکثریت کرد نسل کے سیاستدانوں کی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف استنبول کے علاوہ کرد اکثریتی آبادی والے متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔

Bettler in Diyarbakir
دیار باکر شہر کا منظرتصویر: AP

نااہل قرار دیے گئے افراد پر دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد ہیں۔ ان میں سے سات امیدوار پارٹی برائے امن اور جمہوریت کے حمایت یافتہ ہیں، جو قانونی طور پر ترکی کی سب سے بڑی کرد پارٹی ہے۔ نا اہل قرار دیے گئے سیاستدانوں میں کرد شہریوں کے حقوق کے لیے سر گرم مشہور خاتون رہنما لیلیٰ زانا سمیت موجودہ پارلیمان کے دو ارکان بھی شامل ہیں۔

کردوں کی پارٹی برائے امن اور جمہوریت اور وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی حکمران جماعت، پارٹی برائے انصاف اور ترقی دونوں ہی کرد نسل کی آبادی والے جنوب مشرقی علاقوں میں ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ انہی علاقوں میں ممنوعہ کردستان ورکرز پارٹی بھی گزشتہ قریب تین دہائیوں سے مصروف عمل ہے۔ اس خطے میں شورش کے سبب اب تک چالیس ہزار سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں