1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترکی امریکی ضمانت پر مطمئن نہیں‘

عاطف توقیر
18 جنوری 2018

ترکی کی جانب سے جمعرات کے روز کہا گیا ہے کہ وہ شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی یقین دہانی سے مطمئن نہیں ہے۔ ترکی ان کرد جنگجوؤں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2r4Lv
Türkisch-Syrische Grenze - Türkisches Militär
تصویر: Reuters/O. Orsal

واشنگٹن حکومت  نے کہا تھا کہ وہ شمالی شام میں 30 ہزار کرد جنگجوؤں کو تربیت فراہم کر رہا ہے، تاکہ وہ سرحدی محافظوں کا کردار ادا کر سکیں، تاہم انقرہ حکومت نے دھمکی دی ہے کہ وہ ان کردوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹ (YPG) کو امریکا کی حمایت حاصل ہے، تاہم ترکی کا الزام ہے کہ ان کرد جنگجوؤں کے روابط کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی سے ہیں۔ اسی تناظر میں ترک حکومت YPG کو بھی ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔

ترک شہری امریکا کا سفر کرنے میں محتاط رہیں، ترک حکومت

امریکا اور اسرائیل پاکستان اور ایران میں ’مداخلت‘ کر رہے ہیں، ایردوآن

ایردوآن یورپی یونین کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ویک اینڈ پر اس حوالے سے اپنے شدید ردعمل میں کہا تھا کہ وہ ’دہشت گردوں کی فوج‘ قبول نہیں کریں گے۔ تاہم پینٹاگون کی جانب سے بدھ کو بتایا گیا کہ واشنگٹن حکومت کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں کہ وہ شمالی شام میں کوئی ’فوج‘ بنائے، بلکہ وہ شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے دوبارہ منظم حملوں کو روکنے کے لیے کرد فورسز کی مدد کر رہا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے ایک ملاقات میں اپنے ترک ہم منصب کو اس بابت یقین دہانی کرا دی تھی۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا دورہ فرانس

تاہم نشریاتی ادارے سی این این ترک سے بات چیت کرتے ہوئے ترک وزیرخارجہ مولود چاؤش آؤلو نے کہا، ’’کیا اس یقین دہانی سے ہم پوری طرح مطمئن ہوئے؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ایک دہشت گرد فوج کا قیام ہمارے تعلقات کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ صورت حال بے حد سنجیدہ ہے۔‘‘

واضح رہے کہ کرد عسکری تنظیم YPG، ترکی اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ بنی ہوئی ہے۔ امریکا ان کرد جنگجوؤں کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ میں اپنا ایک قریبی اتحادی سمجھتا ہے، تاہم ترکی کا الزام ہے کہ وہ کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کی ایک شاخ ہے۔

اس سے قبل ترکی نے خبردار کیا تھا کہ وہ ان کرد جنگجوؤں پر عفرین اور ملحقہ علاقوں میں حملے شروع کر سکتا ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی توثیق کے بغیر ترکی کبھی سرحد پار شامی علاقوں میں ایسا کوئی بڑا فوجی آپریشن نہیں کر سکتا، کیوں کہ ان علاقوں میں روسی فوج بھی موجود ہے۔