1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تيونس ميں اسلامی شدت پسندی کا خطرہ ؟

17 جنوری 2011

تيونس کے معزول صدر زين العابدين ايک ايسے صدر سمجھے جاتے تھے، جنہوں نے شدت پسند اسلامی تحريکوں کو قابو ميں کيا ہوا تھا۔ اُنہوں نے اپنے ملک ميں آزاد خيال اور مذہبی سياسی جماعتوں کو درحقيقت اٹھنے کا موقع ہی نہيں ديا تھا۔

https://p.dw.com/p/zyhn
تيونس کے معزول صدر بن علیتصویر: picture alliance / dpa

کيا زين العابدين بن علی کے بعد اب تيونس ميں اسلام کا نام لينے والے شدت پسندوں کو واقعی ابھرنے کا موقع ملا ہے؟

تيونس ميں فی الوقت يہ تفکرات پائے جاتے ہيں کہ صدر زين العابدين کے معزول ہونے اور ملک چھوڑ دينے کے بعد بھی پرانی حکومت کی سرکردہ قوتيں جمہوريت کی صرف نمائشی حمايت کريں گی۔ انٹرنيٹ فورمز اور ميڈيا ميں يہ انديشے ظاہر کیے جا رہے ہيں کہ سابق صدر کے وفادار سياسی چالوں يا ملک ميں ہنگاموں کو مزيد ہوا ديتے ہوئے اپنی طاقت اور خود کو حاصل مراعات کو استحکام دے سکتے ہيں۔

Tunis.jpg
حکومت کے خلاف مظاہرہتصویر: AP

اس کے ساتھ ہی ملک ميں اسلام کا نام لينے والے گروپوں کے مستقبل کے بارے ميں بھی ايک متنازعہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ تيونس کے حاليہ ہنگاموں ميں ان اسلامی عناصر اور دوسرے اپوزيشن گروپوں کا ہاتھ بہت ہی کم ہے۔ تاہم گزشہ ہفتہ کے روز تيونس کی ’اسلامی بيداریء نو‘ نامی تحريک کے قائد رشيد غنوشی نے لندن ميں، جہاں وہ جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہيں، یہ اعلان کر ديا تھا کہ وہ جلد ہی واپس وطن آنا چاہتے ہيں۔

عبوری حکومت کے سربراہ کے سرکاری بيانات کے مطابق تمام سياسی جماعتوں اور طاقتوں کو ملک کے مستقبل کی تشکيل ميں حصہ لینے کا موقع ديا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا نام لينے والے گروپوں کو بھی يہی آزادی ملے گی، جنہيں ملک کے غريب طبقے کی حمايت حاصل ہے۔ ممکن ہے کہ تيونس کے آزاد خيال اور قدامت پسند طبقوں کے درميان ايک تنازعہ شروع ہو جائے۔ بہت سی خواتين کو يہ انديشہ ہے کہ اُن کے حقوق چھن جائيں گے۔ ايسی ہی ايک خاتون صوفيہ ہمامی نے کہا: ’’ايک عورت کی حيثيت سے مجھے بہت فکر ہے کہ پچھلے 50 برسوں ميں حقوق نسواں کے سلسلے ميں جو کاميابياں حاصل ہوئی ہيں، اُنہيں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

Tunesische Armee in Tunis
تيونس، سرکاری عمارات پر نيشنل گارڈز کا پہرہتصویر: picture alliance / dpa

بہت سے دوسرے عرب اور اسلامی ممالک کی طرح تيونس ميں بھی اسلامی اقدار کی طرف واپسی کا واضح رجحان پايا جاتا ہے۔ ليکن اسلامی بيداریء نو نامی تحریک کے رشید غنوشی کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی نظريات کے مطابق جمہوريت اور انسانی حقوق پر يقين رکھتے ہيں اور اُن کی پارٹی ترکی کی برسر اقتدار پارٹی ہی کی طرح کی ہے، جسے مغربی ميڈيا اکثر اسلامی قدامت پسند يا اعتدال پسند اسلامی پارٹی کا نام ديتا ہے۔

رپورٹ: شمس العیاری / شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں