1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جب دوا ہی کام نہ کرے۔۔۔

1 اپریل 2011

1928ء میں جب الیگزینڈر فلیمنگ نے پہلی اینٹی بائیوٹک دوا پنسیلین ایجاد کی تھی تو یہ واضح ہو گیا تھا کہ انسان جراثیموں پر قابو پا سکتا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جراثیم ادویات پر بھاری ہوتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/10loO
تصویر: Bilderbox

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر جراثیم مختلف اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف اپنی مزاحمت بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی ادویات کی ایجاد جاری رہے تاکہ مہلک جراثیموں سے ایک قدم آگے ہی رہا جائے۔ کئی عشروں سے سائنسدان اپنی ان کوششوں میں کامیاب نظر آتے رہے ہیں تاہم اب صورتحال کچھ مختلف معلوم ہوتی ہے۔

بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی ایک انفیکشن MRSA سے صرف امریکہ میں ہی سالانہ 19 ہزار افراد لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایڈز اور ایچ آئی وی جیسی بیماری سے ہلاک ہونے والے افراد سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح اس بیماری نے یورپ میں بھی متعدد افراد کو متاثر کیا ہے۔ MRSA نامی انفیکشن نے کئی اینٹی بائیوٹکس کے مقابلے میں اپنی مزاحمت پیدا کر لی ہے۔ اب ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انفیکشن کے خاتمے کے لیے کسی نئی ایجاد کی ضرورت ہے۔

Peru Fake Medizin Flash-Galerie
غلط استعمال کی وجہ سے ہی بیکٹیریا اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیںتصویر: ap

اینٹی بائیوٹکس کے مقابلے میں بیکٹیریا کے مضبوط ہو جانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کئی ترقی پذیر ممالک میں آج کل جراثیم کش اینٹی بائیوٹکس بہت ہی عام ہو چکی ہیں۔ پاکستان، تھائی لینڈ اور بھارت کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکی ممالک میں بھی اینٹی بائیوٹکس ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اس لیے ان ادویات کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ غلط استعمال کی وجہ سے ہی بیکٹیریا اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بغیر ضرورت کے اینٹی بائیوٹکس استعمال کرے یا نسخے کے مطابق استعمال نہ کرے تو جراثیم اس دوائی کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں۔

کئی ممالک میں جب لوگ بیماری کی حالت میں اینٹی بائیوٹکس لینا شروع کرتے ہیں تو طبعیت سنبھلتے ہی دوائی کا کورس ختم کر دیتے ہیں۔ حالانکہ بیماری دور ہو جانے کے باوجود بھی اینٹی بائیوٹکس کا کورس پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

جہاں ایک طرف اینٹی بائیوٹکس کے غلط استعمال اور پرانی اینٹی بائیوٹکس کی وجہ سے بیکٹریا ان کے خلاف مزاحمت پیدا کر رہے ہیں، وہاں دوسری طرف نئی اینٹی بائیوٹکس کی ایجادات میں سرمائے کی کمی بھی حائل ہے۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس مخصوص صورتحال میں مناسب حکمت عملی نہ اپنانے کی صورت میں صحت کے شعبے میں نہ صرف مالی بلکہ جانی نقصان کا احتمال بھی ہو سکتا ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں