1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن الیکشن پر طلباء یونین کا موقف

23 ستمبر 2009

بيس سالہ يونس اوقاسے جرمنی میں طلباء کی سب سے بڑی يونين کے چیئرمين ہيں۔ اس يونين کے اراکين کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہے اور يہ جرمنی کی مخلوط حکومت ميں شامل پارٹی کرسچن ڈيموکريٹک يونين سے قربت رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/Jmw5

جرمنی کے شہر من ہائم سے تعلق رکھنے والے بيس سالہ مسلم يونس اوقاسے کو اس سے نفرت ہے کہ ان پر تارک وطن ہونے کا ٹھپہ لگا ديا جائےاور ان کو صرف اسی حيثيت سے ديکھا جائے۔ کرسچن ڈيموکريٹک يونين يا سی۔ڈی۔يو سے قربت رکھنے والی طلبا کی يونين کے چیئرمين اوقاسے مراکشی تارک وطن گھرانے سے ہے۔

اوقاسے کی خواہش ہے کہ وہ سی۔ڈی۔يو آئندہ بھی واضح موقف اختيار کرے۔ يعنی يہ کہ وہ تعليمی پاليسی ميں تين جزوی اسکول نظام کی حمايت کرےجوکامياب ثابت ہوا ہے، جيسا کہ خود ان کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلے ابتائی اسکول پھر ثانوی اسکول اور اس کے بعد گريمر اسکول سے تعليم حاصل کی۔

جرمنی کی طالب علموں کی سب سے بڑی سياسی تنظيم کے چيئرمين اوقاسےکا کہنا ہے کہ ان کے نزديک خودآگاہی ايک کليدی لفظ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدين نے ان پر بے تحاشہ پيسہ خرچ کيا تاکہ وہ کچھ بن سکيں ليکن اس کا کوئی فائدہ نہيں ہوا جب تک کہ انہوں نے خود اپنے آپ سے يہ سوال نہيں کيا کہ وہ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد کيا بننا چاہتے ہيں۔

Deutschland Wahlen Plakat SPD und CDU Angela Merkel und Frank-Walter Steinmeier
برلن میں انتخابی مہم کے سلسلے میں لگائے گئے سائن بورڈزتصویر: AP

اوقاسے کی طلبا يونين کے دس ہزار اراکين ميں سے زيادہ تر عيسائی قدامت پسند طلبا ہيں۔ کرسچن سوشل يونين پارٹی کے سابق چيئر مين ارون ہوبر نے کہا کہ شايد بہت سے مسلمانوں کے لئے کرسچن ڈيموکريٹک اور کرسچن يونين پارٹی کی طرف آنے ميں کرسچن کا لفظ رکاوٹ بنتا ہے۔ ليکن ملک ميں جتنا زيادہ عرصے تک قيام کيا جائے اور سياسی جماعتوں سے جتنا زيادہ اختلاط کيا جائے اتنا ہی زيادہ کھلا رويہ پيدا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک ميں جو بھی رہتا ہے اسے سياسی ذمے داری بھی قبول کرنا چاہئے کيونکہ اس کی قسمت اور مستقبل بھی اسی معاشرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ ابھی تک سی۔ڈی۔يو اور سی۔ايس۔يو کے اراکين اور ان کو ووٹ دينے والوں ميں مسلمان بہت کم ہيں۔ ليکن ان کا کھلا طرزعمل،رواداری اور آپس ميں دوستانہ رويہ يہاں رہنے والے تارکين وطن کو سیاسی عمل ميں شرکت کی دعوت بھی ہے۔

يونس اوقاسے جرمنی ميں جاری انتخاباتی مہم ميں کرسچن ديموکريٹک يونين يا سی۔ڈی۔يو کی طرف سے پيتيس عوامی جلسوں ميں شرکت کررہے ہيں۔ يہ خاص طور پر رمضان کے ابھی ختم ہی ہونے والے مہينے کے دوران اوقاسے کے لئے کوئی آسان کام نہيں تھا۔ يونس اوقاسے کو اس سلسلے ميں کوئی تضاد محسوس نہيں ہوتا کہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود ايک عيسائی پارٹی کے لئے سرگرم عمل ہيں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سی۔ڈی۔يو پسند ہے کيونکہ وہ اپنی سياست کی بنياد مذہب پر رکھتی ہے۔ مسلمان کی حيثيت سے وہ کھل کر کہتے ہوں کہ انجيل ميں جو دس احکامات ہيں وہ قرآن ميں بھی موجود ہيں۔

يونس نے بچپن ميں کئی برس جرمنی ميں گذارے۔ ان کے والدين ميں عليحدگی ہو جانے کے بعد ان کے والد چارسالہ يونس کو اپنے ساتھ مراکش لے گئے جہاں انہيں پرائمری اسکول ميں داخل کرا ديا گنا اور وہ آنے دادا دادی کے ساتھ رہنے لگے۔ آٹھ سال کی عمر ميں وہ جرمنی واپس آگئے۔

پندرہ برس کی عمر ميں انہوں نے سياست ميں دلچسپی لينا شروع کی اور وہ طلبا کی يونين اور پھر سی۔ڈی۔يو کے رکن بھی بن گئے۔ طلبا يونين کا چيئر مين بننے کے بعد انہوں نے کئی اشتعال انگيز بيانات کے ذريعے بہت سوں کو اپنی طرف متوجہ کرليا۔ وہ ترکی کو مستقبل قريب ميں يورپی يونين ميں شامل کرنے کے مخالف ہيں اور ان کا کہنا ہے کہ پہلے ان ملکوں کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے جو پہلے ہی يونين کے رکن ہيں۔

يونس اوقاسے مسلمان خواتين کے سر کو ڈھانپنے کی ممانعت کے بارے ميں جو نظريہ رکھتے ہیں وہ ان کی پارٹی کرسچن ڈيموکريٹک يونين ميں پسند نہيں کيا جاتا۔ ان کے مطابق ہر عورت کو خود يہ فنصلہ کرنا چاہيے کہ وہ اپنے سر کے بالوں کو ڈھانپنا چاہتی ہے يا نہيں۔اسی طرح جرمنی کے ہر وفاقی صوبے کو اس پر پابندی ہٹانے کا خود فيصلہ کرنا چاہئے۔

اوقاسے، ستائيس ستمبر کو جرمنی کے عام انتخابات تک ملک بھر ميں اپنی اور اپنی پارٹی اور چانسلر ميرکل کے دوبارہ انتخاب کے لئے حمايت حاصل کرنے غرض سے سرگرم عمل رہيں گے۔

انہوں نے حال ہی ميں شہر ڈوسلڈورف کی ايک فرم میں چھ ماہ کی اپرنٹس شپ ختم کی ہے۔ اس کے بعد وہ اعلی تعليم حاصل کرنا چاہتے ہيں۔ ہ سياست کولازماً اپنا پيشہ نہيں بنانا چاہتے اور اکنامکس يا معاشيات کی تعليم مکمل کرنے کے بعد اپنے والدين کی فرم ميں کام کرنا چاہتے ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عدنان اسحاق